اب آجایئے اس سوال کی جانب کہ کیا نجومی علم غیب کا دعوی کرتے ہیں؟ بڑی عمر والوں کو یاد ہوگا کہ آج سے تیس چالیس سال قبل تک جدید تمدن کے دیہی امام یہ دعویٰ رکھتے تھے کہ یہ جو محکمہ موسمیات والے کہتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں علاقے میں بارش ہوگی، یہ غیب کے دعوے ہیں۔
اور مولوی صاحب یہ دعویٰ اس لئے فرماتے تھے کہ انہوں نے نہ موسمی ریڈار دیکھ رکھے تھے، نہ سیاروں سے کھینچی گئی تصاویر، اور نہ ہی کم ہوا کے دباؤ کے وہ چشم دید مناظر جو محکمہ موسمیات کی سکرینوں پر نظر آتے تھے۔ اگر مولوی صاحب وہ دیکھ لیتے تو جان پاتے کہ محکمہ موسمیات غیب کے دعوے نہیں کرتا بلکہ اپنا “مشاہدہ” بیان کرتا ہے۔ اور یہ مشاہدہ تو خود مولوی صاحب بھی محدود سا سہی مگر یوں بیان کرتے ہیں کہ دور افق پر بادل امڈتے دیکھے تو زوجہ کو آواز دی
“اللہ لوکے ! صحن سے کپڑے بستر سمیٹ لے، بارش ہونے والی ہے”
تو کیا مولوی صاحب کا یہ دعویٰ علم غیب پر ہاتھ صاف کرنا ہوتا تھا؟ نہیں، وہ مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں اپنی زوجہ سے کپڑے سمیٹنے کا کہتے تھے۔ فرق بس یہ ہے کہ مولوی صاحب کے مقابلے میں محکمہ موسمیات والوں کی “آنکھ” زیادہ بڑی ہے۔ مولوی صرف بادل دیکھ پاتا ہے۔ جبکہ محکمہ موسمیات والوں کی آنکھ بادل بنانے والے سسٹم کا بھی مشاہدہ کر لیتی ہے۔ چنانچہ وہ اس سسٹم کی قوت دیکھ یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ بارش شدید ہوگی، متوسط یا بس معمولی سی۔ اس کے بعد وہ یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے، اور اس کی رفتار کیا ہے۔ کیا رفتار میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے؟ اگر ہو رہا ہے تو کس شرح سے؟ اس کے بعد وہ یہ دیکھتے ہیں کہ بارش کا یہ سسٹم جس علاقے کی جانب بڑھ رہا ہے اس کی مسافت کیا ہے؟ چنانچہ اس جملہ کیلکولیشن کےبعد وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں مقام پر اتنی اتنی بارش کا امکان ہے۔ اب آپ بتایئے اس میں غیب کا دعوی کہاں سے آگیا؟ یہ تو سارا علم حاضر اور چشم دید ہے۔
بعینہٖ آسٹرالوجی کی صورتحال ہے۔ آپ کسی بھی آسٹرالوجر سے ستاروں کی پوزیشن والا چارٹ چھین لیجئے۔ اور اس سے کہئے، حضور بتایئے اگلا ہفتہ کیسا ہوگا؟ تو وہ کہے گا “دیکھے بغیر” کیسے بتادوں؟ لاؤ چارٹ واپس دو، دیکھ کے بتا دیتا ہوں۔
نجوم، علم الاعداد اور پامسٹری وغیرہ کے حوالے سے ہم محض سنی سنائی باتیں نہیں کر رہے۔ یہ ہمارا مزاج ہی نہیں ہے کہ بس سینہ گزٹ کے راوی بن گئے۔ ہم جب تک کسی چیز کو ٹھونک بجا کر پرکھ نہ لیں، بات نہیں کرتے۔ چنانچہ کوئی بیس برس قبل ہم ان علوم کی طرف محض یہ سمجھنے کی غرض سے متوجہ ہوئےکہ ان سے متعلق اگر کبھی اظہار خیال کرنا پڑے تو کم از کم وہ کہیں جو ہم نے باقاعدہ وقت لگا کر سمجھا ہو۔ چنانچہ پھر انہیں سمجھا بھی اس حد تک ان میں باقاعدہ تجربات کئے۔ تاکہ عملاً دیکھ سکیں کہ یہ جو نجومی دعوے کرتے ہیں یہ درست بھی ہوتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر درست ہوتے ہیں تو اس کی شرح اوسط کیا ہوتی ہے؟
چنانچہ ایک تجربہ ہم نے یوں کیا کہ ہر چاند یا سورج گرہن بعض بروج کے لئے زحمت جبکہ بعض کے لئے رحمت کا “سسٹم” بن کر آتے ہیں۔ سو ایک چاند گرہن آرہا تھا جو علم نجوم کے مطابق ہمارے لئے دو قسم کی آفات بیک وقت لا رہا تھا۔ ایک یہ کہ ہم پانی سے متاثر ہوں گے، اور دوسرا یہ کہ ہم آگ کا نشانہ بنیں گے۔ ہم بالعموم چاند اور سورج گرہن کے نوافل پڑھتے ہیں۔ مگر اس موقع پر ہم نے قصداً اس ڈھال کو استعمال نہ کیا۔ اتفاق یہ تھا کہ ہم اس روز فیملی کے ساتھ بذریعہ شالیمار ایکسپریس لاہور جا رہے تھے، اور وہاں سے ہم نے آگے اسلام آباد کا سفر کرنا تھا۔ شالیمار جب پنجاب میں داخل ہوئی تو شدید بارش تھی، اور بوگی عین ہمارے سر کے اوپر سے ٹپکنی شروع ہوگئی۔ اور کوئی حل بھی نہیں۔ کیونکہ شالیمار کی پارلر کار والی تینوں بوگیاں فل تھیں۔
صرف یہی نہیں، بلکہ جب لاہور پہنچے تو وہاں بھی شدید بارش۔ اب بس اڈے کیسے جائیں؟ چنانچہ طے کیا کہ پنڈی اسلام آباد کے مابین چلنے والی پارلر کار سے چلتے ہیں۔ ٹکٹ بھی مل گئے۔ صاف ستھری بوگی میں اپنی سیٹ پر بیٹھے تو کچھ دیر بعد ویٹر آگیا اور پوچھا “چائے یا کافی لیں گے ؟” اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ اس بوگی میں ہی چائے کافی بنانے والی مشین لگی ہے لہٰذا ملے گی بھی گرما گرم اور اچھے معیار کی۔ سو ہم نے چائے منگوا لی۔ کھولتی چائے لائی گئی تو ہم نے اگلی سیٹ کے پشتے میں نصب چھوٹی ٹرے نما میز کھول لی اور چائے کا کپ اس میں رکھ دیا۔ بس چند سیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کہ وہ ٹرے ہماری گود میں آ گری۔ مت پوچھئے کہ اس کھولتی چائے نے ہمارے “علاقہ غیر” میں کیا کیا حشر برپا کیا۔ بس اتنا جان لیجئے کہ اس کے بعد ہم نے کبھی کسوف یا خسوف کے نوافل نہیں چھوڑے۔ یہ ہم محض ایک تجربہ سمجھانے کی غرض سے شیئر کر رہے ہیں ورنہ ایسے تجربات ہم نے اَن گنت کر رکھے ہیں۔
ان علوم میں سے دست شناسی وہ علم ہے جسے ہم نے سمجھنے سے تھوڑا زیادہ سیکھا ہے۔ کئی سال قبل ہمارے مرحوم دوست سعد اللہ مینگل کے بھائی انگلینڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے لوٹے تو اندازہ ہوا کہ حسب معمول یہ جملہ سب سے زیادہ سیکھ کر لوٹے ہیں “میں ان چیزوں میں بلیو نہیں کرتا”۔ ہمارے بھائی قاری حمایت اللہ کے گھر ان سے ملاقات ہوئی۔ ٹی وی پر کوئی شول چل رہا تھا جس میں کوئی آسٹرالوجر بات کر رہے تھے تو ہمارے “اعلی تعلیم یافتہ” مینگل دوست نے اپنا بلیو نہ کرنے والا جھنڈا لہرا دیا۔ ہم نے ان سے کہا، ہاتھ دکھایئے۔ ایک نظر ڈال کر ہم نے سمپل سا ایک دعویٰ کردیا۔ تو فرمایا
“ایسا تو اکثر لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، اس میں کونسی بڑی بات ہے ؟”
ہم نے عرض کیا:
“یہ ہلکا دعویٰ ہم نے آپ سے یہی سننے کے لئے کیا تھا۔ اب ہم آپ کے ہوش اڑانے لگے ہیں”
اور یہ کہہ کر ہم نے انہیں بتایا کہ ان کی اہلیہ ان دنوں پریگیننٹ ہیں۔ اس پر انہوں نے ہمارے بھائی کی جانب اشارہ کرکے کہا
“بھابی نے ان کو بتا دیا ہوگا، اور انہوں نے آپ کو اور۔۔۔۔۔۔۔۔”
ہم نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا:
“ان کا ساتواں مہینہ چل رہا ہے”
بس یہ سنتے ہی ان کا بلیو نہ کرنے والا سارا نشہ ہرن ہوگیا۔ اور لگے سر کھجانے
اب آجایئے سب سے اہم سوال کی جانب۔ کیا ان علوم سے لوگوں کو اپنی قسمت کے احوال معلوم کرنے چاہئیں؟ ہم پوری شدت کے ساتھ کہیں گے کہ ہرگز نہیں۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ علوم ایسے نہیں ہیں کہ آپ ایک کتاب میں اس کا احاطہ کرکے یہ دعویٰ کرسکیں کہ یہ لیجئے صاحب! اس پورے علم کا احاطہ ہوگیا۔ بس یہ کتاب آپ پڑھ، سمجھ لیجئے تو کل علم آپ کے پاس آگیا اور کچھ بھی اس سے باہر نہ بچا۔ ہماری رائے یہ ہے کہ یہ علم اب بھی نصف یا اس سے کچھ کم مستور ہے۔ بالخصوص کچھ ستارے ایسے ہیں جن تک انسان ابھی رسائی حاصل نہیں کرسکا۔ چنانچہ ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ آسٹرالوجی میں بمشکل چالیس فیصد دعوے درست نکلتے ہیں۔ جانتے ہیں اس کا نتیجہ آپ پر کیا پڑتا ہے؟ آپ خوش فہمی کے بانس پر بار بار چڑھتے اور گرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پہلے نفسیاتی مریض اور پھر مکمل پاگل ہوجانے کا امکان پیدا کر لیتے ہیں۔ ان علوم سے بس اتنا ہی جانئے کہ آنے والا وقت اچھا ہے یا برا؟ اس سے آگے کی تفصیل میں گھسنے سے پرہیز کیجئے۔
اچھے اور مشکل دن ہر انسان، ہر قبیلے، اور ہر ملک کی تاریخ میں آتے ہیں۔ اور ان کا پیشگی علم حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالی خوابوں کی مدد سے بھی اپنے بندے کو متوجہ فرماتے ہیں کہ آگے کچھ کٹھن آنے والا ہے۔ اس کی زبردست مثال سورہ یوسف میں مذکور عزیز مصر کا وہ خواب ہے جس کی تعبیر بتاتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام نے خشک سالی کے سات سال آنے کی پیشگی وارننگ سے آگاہ کیا۔ چنانچہ اس خواب کے نتیجے میں حکومت نے مشکل وقت کے لئے پلاننگ کرلی جس کی تفصیل تفاسیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ان علوم کی نسبت سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ علم غیب انسان کے پاس نہیں ہے لیکن اللہ کے پاس تو ہے۔ جس کا اظہار ہم بارہا یوں دیکھتے ہیں کہ کسی سمندری طوفان سے متعلق محکمہ موسمیات دعوی کرتا ہے کہ یہ فلاں شہر کی جانب بڑھ رہا ہے اور وہیں پہنچے گا۔ مگر پھر اچانک اسی محکمے کے لوگ بریکنگ نیوز دے ڈالتے ہیں کہ طوفان نے اچانک رخ بدل دیا ہے۔ اب محکمہ موسمیات کا مشاہدہ اور تجربہ یہ بتا رہا تھا کہ یہ فلاں مقام کی جانب جائے گا اور اسی کو متاثر کرے گا لیکن پردہ غیب کا یہ راز وہ نہیں جانتا تھا کہ ذات باری تعالی اچانک ہواؤں کا رخ موڑ بھی دے گی۔
اسی طرح فرض کیجئے زائچہ یہ بتا رہا ہے کہ فلاں برج والے چاند یا سورج گرہن سے فلاں طرح کی آفت کا شکار ہوں گے لیکن ان میں سے نصف نے کسوف یا خسوف کے نوافل پڑھ لئے تو؟ کیا اب بھی وہ متاثر ہوں گے ؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اسی طرح آپ صدقے سے بلاؤں کے ٹلنے والا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ زائچہ کہہ رہا ہے کہ فلاں کا بیڑا غرق ہوگا۔ لیکن فلاں تو صدقے کی عادت رکھتا ہے۔ اور صدقہ بلائیں ٹال دیتا ہے۔ یوں صدقے کا محض سو پچاس کا نوٹ ہی پورے علم نجوم کی واٹ لگانے کے لئے کافی ہے۔
پھر سب سے اہم یہ کہ یہ علوم اس حد تک ناقص ہیں کہ آپ کسی ماہر نجومی کو کسی شخص کا نام، والدہ کا نام، تاریخ پیدائش، مقام پیدائش، اور وقت پیدائش سمیت دیدیجئے اور ان سے کہئے کہ حضور یہ لیجئے اپنی فیس، وہ بھی ڈبل۔ اس شخص کا زائچہ بنا دیجئے اور بتایئے کہ ان کا 2024ء کیسا گزرے گا ؟ وہ آپ کو زائچہ بھی بنا دے گا۔ اور یہ بھی بتا دے گا کہ اس کا 2024ء کا سال کیسا گزرے گا ۔ جبکہ فی الحقیقت وہ شخص 2014ء میں فوت ہوچکا ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ یہ کہنا کہ یہ علوم بکواس ہیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ بجائے خود بکواس دعویٰ اور نری جہالت ہے۔ یہ علوم ایک حقیقت ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا بھی ایک بڑی جہالت ہے کہ ان علوم کی روشنی میں اپنی آنے والی پوری زندگی مائیکرو لیول پر بلان کی جاسکتی ہے۔ بس نجومی نے زائچہ بنایا اور بتایا کہ یوں یوں ہوگا تو اب یوں یوں ہی ہوگا۔کیا آپ نے آج تک کسی نجومی سے یہ سنا کہ اس نے نئے سال کے آغاز پر ملک کے احوال بتاتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس سال فلاں فلاں سیاستدان فوت ہوجائے گا؟ احتیاط جانِ عزیز ! احتیاط! (ختم شد)