بروج اور ستاروں سے متعلق افراط و تفریط/ پہلا حصہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں چھچورپن بہت زیادہ ہے۔ چھچور پن ان لوگوں میں پایا جاتا ہے جن کا برتن علم سے خالی ہو۔ چونکہ ان کے لاشعور میں یہ احساس اچھی طرح موجود ہوتا ہے کہ برتن تو خالی ہے۔ سو یہ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرکے خود کو ڈیڑھ شانڑاں ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ صورتحال اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ علم کا شوق اور ذوق اٹھ چکا۔ ہماری درسگاہوں میں جو سرگرمیاں آپ کو نظر آرہی ہیں یہ علم کے لئے بلکہ “روٹی” کے لئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سارا زور ان علوم پر ہے جو کسی نہ کسی “ذریعہ معاش” سے جڑے ہیں۔ جتنی اس ذریعہ معاش کی کمائی زیادہ اتنی ہی یونیورسٹی میں اس علم کی تعلیمی فیس اونچی۔ علم کو علم کے لئے حاصل کرنے کا چلن اب باقی ہی نہیں رہا۔

چنانچہ نتیجہ یہ ہے کہ مسخروں نے روزی روٹی کے لئے جو سبجیکٹ پڑھ رکھا ہے اس کے علاوہ حرام ہے جو کچھ جانتے ہوں۔ اور حماقت کی انتہاء دیکھئے رائے ہر شعبے میں ٹھوکتے ہیں۔ آپ تفسیر کا موضوع چھیڑ دیں تو یہ مفسر ہیں، علم حدیث کا ذکر چھیڑ دیں تو یہ محدث بن جاتے ہیں، حتی کہ آپ فزیکس کو زیر بحث لائیں گے تو خبیث آئن سٹائن کے بھی باپ بن جائیں گے۔ جبکہ سبجیکٹ سے متعلق بنیادی معلومات بھی ان کے پاس نہ ہوں گی۔

اب آپ ذرا یہ فلکیات والا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ سوشل میڈیا پر آج کل ایک پوسٹر گردش کر رہا ہے۔ وہ پوسٹر جس نے بنایا ہے اس نے پوسٹر فنی لحاظ سے بڑا فٹ ڈیزائن کیا ہے۔ کیونکہ روزی روٹی کمانے کے لئے اس نے گرافک ڈیزائننگ سیکھ رکھی ہے۔ چنانچہ یہ کام اسے بالکل ٹھیک آتا ہے۔ مگر جو بات اس پوسٹر میں تمسخر والے انداز میں کہی گئی ہے، اس کا اسے کچھ بھی نہیں پتہ۔ لیکن چونکہ بولنا ہر موضوع پر ہے تو چپ آسٹرالوجی کے معاملے میں بھی نہیں رہنا۔

اب جب علم کے بغیر بولیں گے تو ماریں گے تو پھر بونگی ہی۔ اس پوسٹر میں بنیادی طور پر یہ طنز کیا گیا ہے کہ مشتری نام کا ایک سیارہ زمین سے 67 کروڑ 57 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر گردش کر رہا ہے۔ اور اس سیارے کی ڈیوٹی اوکاڑے کی رضیہ اور جمیل کی شادی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ بات فقط اس پوسٹر تک ہی نہیں بلکہ حد یہ ہے کہ آسٹرالوجی یا جملہ سری علوم سے متعلق یہ بونگیاں دینی و مادی دونوں علوم سے نسبت رکھنے والوں نے مار رکھی ہیں۔

یہ بات تو ہم سب مانتے ہیں ناں کہ اس کائنات میں کوئی تخلیق بھی بے مقصد نہیں۔ ہر چیز کا ایک مقصد ہے اور کائنات میں وہ اپنا رول ادا کر رہی ہے۔ اب یہ مسلمہ ذہن میں رکھ کر غور کیجئے تو قرآن مجید میں ستاروں ہی نہیں بلکہ بروج کا ذکر بھی بار بار آیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ قرآن مجید میں تو اللہ سبحانہ و تعالی صرف انتہائی اہم امور کا ذکر فرماتے ہیں۔ مثلا اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ نماز کا حکم اور ذکر موجود ہے مگر نماز کا طریقہ اور پانچ اوقات مذکور نہیں۔ طریقہ اور اوقات رسول اللہ ﷺ پر چھوڑ دیئے کہ وہ بتائیں گے اور سکھائیں گے۔ اور آپ ﷺ نے بتائے اور سکھائے۔ تو جو قرآن صرف انتہائی ضروری امور پر بات کرتا ہے وہ برجوں کا بار بار ذکر کیوں کر رہا ہے ؟ حالانکہ ستارے تو چلو بغیر دوربین کے نظر بھی آتے ہیں جبکہ برج تو زمین سے نظر بھی نہیں آتے۔ ذرا یہ آیت دیکھئے

وَ لَقَد جَعَلنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوجًا وَّ زَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِینَ
(حجر آیت 16)
ترجمہ :اور یقینا ہم نے آسمان میں بروج بنائے ہیں اور اسے دیکھنے والوں کے لئے مزین کردیا ہے

اگر آپ اردو تفاسیر کا مطالعہ فرمائیں تو آپ کو ایسے نام نہاد مفسر بھی نظر آئیں گے جنہوں نے صاف لکھا ہے کہ بروج ستاروں کو کہتے ہیں۔ یہ دعوی کرنے سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اس مفسر نے علم فلکیات کا ادنی ترین درجے میں بھی مطالعہ نہیں کیا، اور جرات دیکھئے کہ تفسیر لکھنے بیٹھا ہے۔

دوسری چیز یہ ثابت ہوتی ہے کہ ان حضرت نے یہ زحمت بھی گوارہ نہیں فرمائی کہ رئیس المفسرین حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا ہی مطالعہ فرما لیتے، جو صاف فرما چکے کہ بروج ستاروں کی منازل ہیں۔ آپ آئے روز ٹی وی پر آسٹرالوجرز کو کہتے سنتے ہی ہوں گے کہ فلاں ستارہ فلاں “گھر” میں ہے۔ منزل قیام گاہ کو ہی کہتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے کراچی کی کئی بلڈنگز کے نام اس نوع کے دیکھے ہی ہوں گے، سعید منزل، عائشہ منزل، کریم منزل وغیرہ۔

اب سوال یہ آجاتا ہے کہ ان ستاروں اور بروج کا کیا رول ہے ؟ جس طرح ہمارے صحت سے متعلق سوالات کا جواب طبیب اور تخلیقات سے متعلق سوالات کے جوابات انجینئر دیتے ہیں بعینہ ستاروں اور بروج سے متعلق سوالات کے جوابات ہمیں آسٹرالوجرز یعنی نجومی سے ملیں گے۔ کم بختی اس درجے کے ہوگئی ہے کہ نجومی کا مطلب “غیب کی خبریں دینے والا” سمجھ لیا گیا ہے۔ چنانچہ کچھ نوسربازوں نے جب دیکھا کہ یہ قوم تو اتنی جاہل ہے کہ نجومی غیب دان کو کہتی ہے تو انہوں نے سوچا کہ چلو پھر یہی دھندہ کرتے ہیں۔ اور یوں نجومی لفظ بس اسی معنی سے چپک کر رہ گیا۔ ورنہ نجومی ستاروں کا علم رکھنے والے کو کہتے ہیں۔

اب آسٹرالوجر یہ کہتے ہیں کہ ہماری اس زمین پر جتنی بھی چھوٹی بڑی حرکات ہوتی ہیں ان میں ان ستاروں اور بروج کا مرکزی کردار ہے۔ جس طرح بارش ہوا کے کم دباؤ اور بادل والے سسٹم ہوتی ہے بعینہ ستاروں اور بروج کا بھی اسی طرح کا کردار ہے اور جس طرح بارش بارانِ رحمت بھی ہوتی ہے اور باران زحمت بھی اسی طرح ستاروں کی بعض مومنٹس رحمت اور بعض زحمت کا باعث بنتی ہیں۔

گویا یہ ستارے اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف عطاء کردہ ڈیوٹیاں اسی طرح ادا کر رہے ہیں جس طرح ہوا، پانی، آگ، خشکی، تری اپنی اپنی ڈیوٹیاں ادا کر رہے ہیں۔ اس زمین پر پھیلی ہر چیز کو بغور دیکھئے وہ کوئی نہ کوئی رول ہی پلے کر رہی ہے۔

اگر آپ زمینی امور میں ستاروں کا عمل دخل قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اس کی ایک آسان ترین صورت بتا دیتے ہیں۔ آپ بچشم خود دیکھ لیں گے۔ آپ چاند کی یکم تاریخ کو سمندر کے کنارے چلے جائیے۔ اور کنکریٹ والے حصے سے ریت پر اترتے ہی اپنے قدموں سے وہ فاصلہ ناپ لیجئے جو کنکریٹ کی اس دیوار سے سمندری لہر کے اس مقام تک ہے جہاں لہر آکر دم توڑ رہی ہے اور یہ فاصلہ نوٹ کر لیجئے۔

اس کے بعد آپ چاند کی پانچ تاریخ کو جاکر وہی پیمائش دوبارہ لیجئے۔ یہ فاصلہ اب پہلے سے کم ہوچکا ہوگا۔ اس کے بعد آپ چاند کی دس تاریخ کو جا کر وہی پیمائش لیجئے۔ اس بار یہ فاصلہ بہت واضح طور پر گھٹ چکا ہوگا۔ لیکن اصل حیرت کا جھٹکا تو آپ کو تب لگے گا جب آپ چاند کی چودھویں کو فاصلہ ناپنے جائیں گے۔اب آپ کو سمندر کی لہریں کنکریٹ کے بہت آس پاس ملیں گی اور لہروں میں جوش اور شور بھی بڑھ چکا ہوگا۔ اور جب چودھویں کے بعد چاند گھٹنا شروع ہوگا تو یہ لہریں ایک بار پھر کنکریٹ کی دیوار سے اپنی مسافت بڑھانا شروع کردیں گی۔

صرف چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کے اس عمل کا ہی خود انسانی جسم سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ ہارٹ یا گردے کے سرجن کسی ایمرجنسی کے بغیر پورے چاند کی تاریخوں میں آپریشن سے گریز کرتے ہیں۔ اور اگر کریں گے بھی تو صورتحال یہ ہوگی کہ چاند کی ابتدائی یا آخری تاریخوں میں اگر وہ آپ سے مریض کے لئے سات بوتل خون منگوائیں گے تو پورے چاند کی تاریخوں میں وہ بارہ پندرہ بوتل خون کی ڈیمانڈ کریں گے۔ کیونکہ جس طرح پورے چاند کی تاریخوں میں سمندر جوش مارتا ہے بعینہ انسانی خون بھی ان تاریخوں میں جوش مارتا ہے۔ چنانچہ جب سرجن چیرا لگاتا ہے تو جسم بڑی مقدار میں خون کا اخراج کرتا ہے۔ اور دوران آپریشن خون کی زیادہ بوتلیں درکار ہوتی ہیں۔

انسان کی ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس کے چراغ تلے ہمیشہ اندھیرا رہتا ہے۔ جو چیز جتنی قریب ہو اتنی ہی وہ اس کے لئے اندھیرے میں ہوتی ہے۔ اور اسے نظر نہیں آتی۔ ورنہ چاند کی حرکت کے نتائج کا مشاہدہ تو وہی کر پائے گا ناں جو کسی ساحلی شہر میں رہتا ہو۔ عین ممکن ہے گلگت والا کہہ دے یہ سب بکواس ہے۔ کیوں ؟ کیونکہ اس نے دیکھا نہیں ۔ سو ممکن ہے وہ انکار کردے۔ لیکن یہ جو سورج دادا ہیں ان کی حرکت تو سب کو نظر آتی ہے۔

کیا زمین پر سردی یوں ہوتی ہے کہ سورج جاڑے کے مہینوں میں مائیکروویواون کی طرح اپنا ہیٹ لیول کم کر لیتا ہے ؟ نہیں، یہ موسمی تغیرات اس کی مومنٹ اور لوکیشن کی تبدیلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ طلوع و غروب آفتاب کی پوزیشن مہینوں کے ساتھ ساتھ بدل رہی ہوتی ہے ؟

جہالت تو اس درجے کی ہے کہ ہمارے ماڈرن مسخرے یہ تک نہیں جانتے کہ فصلوں کا پکنا، اور ان کی مٹھاس کا تعلق بھی سورج اور چاند سے ہے۔ یورپ کا فروٹ سب سے بدذائقہ کیوں ہے ؟ کیونکہ یورپ بادلوں میں گھرا رہتا ہے چاند سورج کی پوری روشنی فصلوں کو مل نہیں پاتی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اور بھارت کا فروٹ بیرون ملک سب سے مہنگا ہے۔کیونکہ موسم پرفیکٹ ہیں۔ فصلوں کو چاند، سورج کی روشنی پوری پوری ملتی ہے۔ اب یہ پوسٹر کوئی بھی نہیں چھاپے گا کہ زمین سے سورج کی مسافت ڈیڑھ سو ملین کلومیٹر ہے اور اس کی ڈیوٹی ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اللہ دتا کی فصلیں پکانا ہے۔
(جاری ہے)

Related Posts