تمہاری آزادی اظہار میرے ایمان سے بڑھ کر نہیں

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سویڈن میں گزشتہ دنوں ایک بار پھر ایک بدبخت شخص کے ہاتھوں قرآن کریم کی بدترین بے حرمتی کے واقعے کے بعد سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل شدید مضمحل ہیں اور اس سلسلے میں مختلف شکل میں غم و غصے کا اظہار جاری ہے۔

بد قسمتی سے دشمنان اسلام کی یہ بے ہودہ ریت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے کہ جب دلیل اور برہان کے میدان میں اسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ نہ کیا جا سکے تو اسلامی معتقدات اور مقدسات کی توہین کے ذریعے مسلمانوں سے اپنی نظریاتی شکست کا بدلہ لینے کی کوشش کی جائے۔ یہ سلسلہ روز اول سے جاری ہے، تاہم جب سے جمہوریت دنیا کا ”کلمہ“ بن گئی ہے اسلام کے خلاف ان اوچھے رویوں اور بے ہودہ اور غیر مہذبانہ اقدامات کو گویا ایک محفوظ پناہ گاہ میسر آگئی ہے۔

”آزادی اظہار“ بالخصوص جمہوریت اور مغرب کے نظریاتی ستونوں میں سے ہے اور اس کی ”ایمانیات“ کا حصہ ہے، چنانچہ اسلام کےخلاف دلوں میں چھپے خبث اور بغض کے اظہار کیلئے ”آزادی اظہار“ کی قدر ایک اہم ٹول بنا دی گئی ہے اور جو کوئی کند ناتراش اور نفرت کے زہر میں بجھا ہوا بد فطرت شخص اٹھ کر اسلام پر اپنی فکری غلاظت کو انڈیل دے اور توہین و گستاخی کا ارتکاب کرے تو پورا مغرب اسے ”آزادی اظہار“ کے عنوان سے حفاظت کی چھتری مہیا کر دیتا ہے، بھلے اس عمل سے دنیا کے سوا ارب سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات و دل مجروح ہوں اور وہ احساس بے بسی میں شدید تکلیف و اذیت سے گزریں۔

مغرب کے ان جمہوریت و انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں کی یہ منافقانہ روش بد باطن و بد فطرت لوگوں کے غلاظت آلود افعال و کردار کو مسلسل جواز فراہم کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد کسی نہ کسی مغربی دار الحکومت میں کوئی غلیظ شخص اٹھ کر توہین و گستاخی کی حرکت کر ڈالتا ہے اور ایک بار پھر پوری دنیا میں تناؤ اور کشیدگی کی چادر تن جاتی ہے۔
سویڈن میں قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل رواں سال جنوری میں بھی یہ ناپاک حرکت کی جا چکی ہے، تاہم دونوں واقعات میں ذرا فرق ہے۔

جنوری میں قرآن کریم کا نسخہ جلانے کی حرکت ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے ایک نسل پرست سوشل ایکٹوسٹ راسموسن پالوڈان نے کی تھی۔ ملعون پالوڈان نے قرآن کریم کا نسخہ جلانے کیلئے ترکیہ کے سفارتخانے کا انتخاب کیا اور اس کی وجہ اسلام سے خار کے ساتھ ساتھ سیاسی بھی تھی۔ دراصل سویڈن مغربی فوجی اتحاد نیٹو میں شمولیت کا خواہاں ہے اور اس نے نیٹو میں شامل ہونے کیلئے درخواست دے رکھی ہے۔ نیٹو اتحاد میں شمولیت کا طریق کار یہ ہے کہ کوئی نیا ملک درخواست دے تو تمام ممبر ممالک اس پر غور کرتے ہیں اور جب تمام ممبر ممالک اس ملک کو شامل کرنے پر متفق ہوجائیں تب درخواست گزار ملک کو اس اتحاد میں شامل کیا جاتا ہے۔ ترکیہ نیٹو کا رکن ہے اور اسے سویڈن سے کچھ سنجیدہ قسم کی شکایات ہیں، ترکیہ کو شکایت ہے کہ سویڈن ترکیہ کےخلاف بر سرِ پیکار کرد علیحدگی پسندوں کی حمایت کرتا ہے اور انہیں سیاسی پناہ بھی دے رکھی ہے، ان شکایات کی بنا پر ترکیہ نے سویڈن کی نیٹو میں شمولیت میں کھنڈٹ ڈال رکھی ہے۔

ترکیہ کے اس اقدام پر سویڈن سمیت پورے اسکینڈے نیویا کے خطے (جو ڈنمارک، ناروے اور سویڈن پر مشتمل ہے) میں ترکیہ کیخلاف غصے اور نفرت کی فضا پائی جاتی ہے۔ جنوری میں راسموسن پالوڈان نامی بد بخت نے ترکیہ سے اسی کد اور عناد میں قرآن کا نسخہ ترکیہ کے سفارتخانے کے باہر جلایا۔ اس واقعے کیخلاف بھی عالمگیر مظاہرے ہوئے اور پوری دنیا میں غیظ وغضب کی شدید لہر اٹھی۔
حالیہ واقعہ اس سے ذرا مختلف ہے، اس دفعہ اٹھائیس جون کو عین اس وقت جب سویڈن کے مسلمان اسٹاک ہوم کی جامع مسجد میں نماز عید ادا کرنے میں مشغول تھے، مسجد کے باہر عراق سے تعلق رکھنے والے ایک ملحد نے اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ بلا اشتعال خالص اسلام دشمنی میں قرآن کریم کا نسخہ نذر آتش کیا۔

اس ملعون نے نہ صرف قرآن کریم کا نسخہ جلایا بلکہ اس حرکت سے قبل تقریباً آدھے گھنٹے تک لائیو براڈ کاسٹ کے دوران قرآن کریم کے نسخے کے ساتھ اس ملعون نے نعوذ باللہ فٹبال کھیلا اور جوتوں سے قرآن کریم کے نسخے کو روندا اور آخر میں اس میں سور کا خشک گوشت رکھ کر اسے آگ لگا دی۔ اس بد ترین بے حرمتی کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہے، جسے کوئی صاحب ایمان اور قرآن پر ایمان رکھنے والا شخص پورا دیکھنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا۔

قرآن کریم کی اس قدر بدترین توہین اور بے حرمتی اس سے قبل گوانتا نامو بے کے امریکی حراستی کیمپ میں بے بس مسلمانوں کے سامنے کیے جانے کی خبریں ایک دہائی قبل آئی تھیں، پبلک میں اس بد ترین انداز میں قرآن کی بے حرمتی کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
اس واقعے سے امت مسلمہ کے ہر ہر فرد کا دل بری طرح چھلنی ہے۔ دنیا بھر کا مسلمان غم و غصے اور الم و دکھ کا مجسمہ بن کر کھڑا ہے، یورپی یونین تک نے اس بد ترین حرکت کی مذمت کی ہے مگر سویڈن کی بد تہذیب اور گنوار حکومت اب تک ”جمہوریت“ اور ”آزادی اظہار“ کے ادھیڑ بن میں ہے۔ شاید سویڈن کو اندازہ نہیں کہ اس کی ”آزادی اظہار“ سے مسلمانوں کو اپنا ایمان اور قرآن کہیں زیادہ عزیز ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا محض ننگی اور ہر طرح کے اصولوں سے عاری آزادی اظہار ہی جمہوریت کا ”کلمہ“ ہے اور کسی دوسرے کے جذبات، دوسروں کے مذہب اور اس کی اقدار کے احترام کیلئے ان کی جمہوریت اور ان کے فکر و فلسفہ میں کوئی گنجائش نہیں؟ جہاں اپنے مفاد پر زد پڑتی ہے جمہوریت کے یہ علمبردار وہاں خود ”آزادی اظہار“ کے پر کاٹنے اور مختلف تحدیدات کے ذریعے اسے پابند بنانے سے گریز نہیں کرتے، مگر اسلام کی بات آتی ہے تو یہ ہر بد تہذیبی کو آزادی اظہار کے عنوان سے ہضم کرجاتے ہیں۔ او آئی سی کو مسلمانوں کا درد و غم اور غم و غصہ درست انداز میں مغرب کے سامنے رکھنا ہوگا اور آزادی اظہار کے نام پر اس ننگی بد تہذیبی کا سلسلہ مستقل بند کرنے کیلئے اقدامات پر توجہ دینا ہوگی۔

Related Posts