سال 2021 اور پاکستان کا معاشی محاذ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سال 2021کافی دشواریوں اور ہلچل کے ساتھ اختتام پذیر ہوا جس میںپاکستان کے سفارتی پیچ و خم پڑوسی ممالک خاص طور پر افغانستان میں بھونچال اور علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال میں امریکا اور چائنہ کے درمیان تناؤ علاقے کے دیگر ممالک خاص طورپر پاکستان پر اثر ڈالتا نظر آرہاہے۔ ان دوطاقتوں کے درمیان تناؤ کی پالیسی بین الاقوامی سسٹم میں توڑ پھوڑ کا پیش خیمہ ہے۔

جیو پولیٹیکل حرکیات کی وجہ سے بڑی طاقتوں کے درمیان جھڑپ چاہے وہ تائیوان کے حوالے سے ہو یا یوکرین کے حوالے سے ہو اس میں زیادہ تر نقصان ان بڑی طاقتوں سے منسلک ممالک کا ہونا ایک قدرتی امکان ہے۔ پاکستان جیسے ممالک نہ چاہتے ہوئے بھی بڑی طاقتوں کی صف بندی کا شکار ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں سپلائی چین متاثر ہوئی جس سے عالمی سطح پر مہنگائی پیدا ہوئی۔ کورونا کے اثرات اس کا صرف ایک عنصر ہیں لیکن پاکستان میں جس طرح ہم نے فسکل اور مانیٹری پالیسی بنائی، اسے زیادہ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا، سونے پر سہاگہ کورونا کی نئی لہر اومی کرون کی جانب سے معیشت کو متاثر کرنا ناصرف ایک تکنیکی عمل ہے بلکہ اس سے مہنگائی کے عوامل میں مزید اضافہ ہونا نوشتہ دیوار ہے۔

دوسری طرف ہماری فسکل اور مانیٹری پالیسی بہت مضبوط، مستحکم اور لائقِ تحسین ہوتی تو عوام پر پڑنے والا دباؤ اتنا زیادہ نہ ہوتا۔ پی ٹی آئی دور کے گزشتہ کم و بیش ساڑھے 3 سالوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 54 روپے گراوٹ آئی۔

روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میں اضافہ ہوا جو دیگر بہت سے حقائق کے علاوہ ملک بھر میں معاشی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ملک کے متوسط اور غریب  طبقے کی قوتِ خرید میں بھی کمی آئی ہے۔ اپر مڈل کلاس بھی مہنگائی کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہا۔حتیٰ کہ اپنے بچوں کی تعلیم سے 29 فیصد رقم نکال کر گھریلو اخراجات پور ے کئے جارہے ہیں جس سے تعلیم کا معیارمتاثر ہوگا۔

چاہے کھانے پینے کی اشیاء ہوں، بجلی کے بل ہوں، باقی روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء یا پیٹرولیم مصنوعات، ہر چیز کے دام بڑھ گئے ہیں۔ دسمبر تک کے اعدادوشمار کے مطابق مہنگائی کی شرح 11اعشاریہ 5سے بڑھ کر 12اعشاریہ 3فیصد تک پہنچ گئی۔

اس دوران ظاہر ہے کہ جب اقتصادی سرگرمیاں ماند پڑ جائیں اور سرمایہ کاری کم ہو تو کسی بھی ملک میں معاشی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ بڑھتی آبادی کے اعتبار سے بھی بے روزگاری عروج پر پہنچ گئی ہے۔

مزید برآں ورلڈ بینک کی جاری کردہ فہرست کے مطابق دنیا کے 73ممالک کو تعاون کی فراہمی معطل کردی جائے گی جس میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے اور موجودہ صورتحال میں پاکستان کو اپنے روزانہ اخراجات پورے کرنے کیلئے 14ارب قرض لینا پڑتا ہے۔

پاکستان پر ملکی و بیرونی قرضہ جات ملا کر کل قرض کا حجم 280 ارب بنتا ہے جس میں 127 ارب بیرونی قرضے ہیں۔ یونیسیف کے سروے اور دیگر سرویز کے مطابق پاکستان ان 10 چوٹی کے ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ قرض لیتے ہیں۔

علاوہ ازیں توانائی کا بحران بھی ہے۔  ہمارے اپوزیشن لیڈر بھی کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کیلئے یہ بحران قابو کرنا مشکل ہورہا ہے۔ ملک بھر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ، گیس کی لوڈ شیڈنگ اور صنعتوں کی بندش بھی ہمارے بڑے مسائل میں شامل ہیںاور ہماری گرتی ہوئی ایکسپورٹ میں مزید تنزلی لارہی ہے۔اگر حکومت چاہتی تو جی ایس ٹی میں اضافے کے بجائے اپنی سرکاری بیمار صنعتوں کا بوجھ اتارسکتی تھی۔

کیونکہ تقریباً 100 ارب تو سرکاری بیمار صنعتوں کو چلانے پر لگ جاتا ہے۔منی بجٹ جو آئی ایم ایف کے کہنے پر لایا گیا ہے، اگر ہم چاہتے تو بیمار صنعتوں پرائیوٹائز یا ٹھیکے پر دے کر 100 یا 200 ارب ڈالر حاصل کرسکتے تھے اور عوام کو مہنگائی کی چکی سے بچایا جاسکتا تھا۔آمدن کے حصول کیلئے دیگر ذرائع بھی اپنائے جاسکتے تھے۔

حکومت نے جو ایمنسٹی دی تھی، اس سے بہت سے لوگوں نے فائدہ نہیں اٹھایا اور بینکوں اور سیونگ سینٹرز میں بھاری رقوم پڑی ہیں جن پر بھاری جرمانہ عائد کیاجاسکتا تھا۔ یہ بھاری جرمانہ غریب عوام کو ٹیکس کے بھاری بوجھ سے بچا کر ریلیف فراہم کرسکتا تھا۔ پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کم کی جاسکتی تھی۔ غریب عوام کے بچوں کی تعلیم پر بھی مہنگائی کا بہت برا اثر مرتب ہوا ہے۔

عوام تعلیم کو زندگی گزارنے کا ثانوی مقصد سمجھنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ لوگوں کا زیادہ تر پیسہ کھانے پینے اور اشیائے ضروریہ کی خریداری میں ہی صرف ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو ملک میں غربت کے ساتھ ساتھ جرائم میں بھی اضافہ ہوگا۔

معاشرے میں بڑھتی ہوئی غربت اور جرائم سے قومی سطح پر بے چینی اور اضطراب جنم لیتا جارہا ہے جو ملک کیلئے کوئی مفید بات نہیں۔ تمام تر مسائل کا حل صرف یہ ہے کہ معاشی مسائل سے نمٹنے کیلئے تمام صوبوں کو ساتھ ملا کر ایک جامع پالیسی تشکیل دی جائے۔

حکومت کو چاہئے کہ اپنی چھوٹی اور متوسط صنعتوں کو فروغ دے۔ کاٹیج، گڈز اینڈ سروسز کی صنعتوں کو بڑھاوا دیا جائے۔ مشینری اپ ڈیٹ کی جائے اور جدید دور کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے عالمی سطح کے معیار پر پورا اترتے ہوئے برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔

برآمدات میں اضافے سے ہی پاکستان میں امریکی ڈالرز کی قدر کم ہوجائیگی۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ برآمدات کی بجائے درآمدات میں اضافہ جاری و ساری ہے، یہ تمام تر صورتحال پاکستان کی معیشت کی تباہی کا سبب بنتی جارہی ہے جس کا تدارک ضروری ہے اور ریاست پاکستان مزید تاخیر کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

Related Posts