یہ کس قدر المناک بات ہے کہ کل جو دنیا یوکرین پر روسی حملے پر بین کر رہی تھی، وہ اب نہایت بے حسی سے اس ظالم اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہے، جو دو ماہ سے زائد عرصے سے لاکھوں بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ حالانکہ اسرائیل کے ہاتھوں بچوں اور خواتین سمیت اب تک 20,000 سے زائد فلسطینی بے دردی سے شہید کیے جا چکے ہیں، جو روس کے ہاتھوں یوکرینی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہیں۔
اس بدترین ظلم و سفاکیت کے باوجود عالم یہ ہے کہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے مشرق وسطیٰ کے اپنے حالیہ دورے کے دوران اپنے اتحادی اسرائیل کو مسلح کرنے کا عزم کیا۔ ایسی صورت میں جبکہ امریکا اسرائیل کو مزید مسلح کرنے کے درپے ہو، کیسے جنگ بندی اور امن کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟
اس منظر نامے میں اس بات کی تہہ میں جانا مشکل نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کئی دنوں سے جنگ بندی کی نئی کوششوں کی بیل منڈھے کیوں نہیں چڑھ پا رہی ہے؟ ایک طرف جنگ بندی کی نئی قرار داد امریکا بہادر کی شہ پر لٹکی ہوئی ہے، دوسری طرف غزہ کے بیس لاکھ سے زیادہ انسان مسلسل اسرائیل کے رحم و کرم پر ہیں اور امن و انسانیت کے علمبردار امریکا کا اتحادی اسرائیل پوری دنیا کے دیکھتے بھالتے غزہ کے باشندوں پر خوراک اور پانی تک بند کیے بیٹھا ہے۔
عالمی ادارے میں سفارت کاری یقینی طور پر ظالم سے سمجھوتا کرتی دکھائی دے رہی ہے، اور اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور قطر پردے کے پیچھے راستہ نکالنے پر زور دے رہے ہیں، مگر ان کی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔
حال ہی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی فلسطینیوں کے مصائب کے خاتمے کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان بلاکس کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا اور دنیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔
تاہم اس سوال کا کہیں سے کوئی جواب نہیں مل رہا ہے کہ اس بدترین انسانی بحران کا انجام کیا ہوگا؟ یمن کے حوثیوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں اسرائیل کے حامی جہازوں کیخلاف چھیڑی گئی سمندری جنگ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ صرف غزہ انکلیو تک محدود نہیں رہے گی۔ اگر ایسا ہوگیا تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جنگ پھیلنے کے واحد ذمے دار اسرائیل کی مدد کرنے والے ہی ہوں گے۔