کیا افغان طالبان کابل پر قبضہ کر سکیں گے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا افغان طالبان کابل پر قبضہ کر سکیں گے؟
کیا افغان طالبان کابل پر قبضہ کر سکیں گے؟

طالبان جس رفتار سے پورے افغانستان میں آگے بڑھ رہے ہیں اس نے اشرف غنی حکومت کو چونکا دیا ہے جبکہ افغان شہریوں میں خوف پیدا ہو گیا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ انہیں امریکی افواج کے انخلا کے فیصلے پر افسوس نہیں ہے اور کہا کہ اب یہ افغانوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ملک کا دفاع کرسکتے ہیں یا نہیں۔

طالبان نے شمال مشرقی افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور اپنے حتمی ہدف کابل کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے۔ خدشات ہیں کہ طالبان افغان دارالحکومت پر دوبارہ قبضہ کر سکتے ہیں۔

طالبان کابل پر قبضہ کر سکتے ہیں؟

امریکی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق طالبان جنگجو 30 دنوں میں افغانستان کے دارالحکومت کو تہہ و بالا کرسکتے ہیں۔ اور ممکنہ طور پر 90 روز میں اس پر تسلط قائم کرلیں گے۔ کیونکہ دوبارہ پیدا ہونے والے عسکریت پسندوں نے 9 صوبائی دارالحکومتوں پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔

افغان دارالحکومت کابل کتنی دیر تک طالبان کے سامنے کھڑا رہ سکتا ہے اس بات کا نیا اندازہ ملک بھر میں طالبان کے تیزی سے حاصل ہونے والے نتائج سے لگایا جاسکتا ہے۔ افغان سیکورٹی فورسز بھرپور مزاحمت کر کے طالبان کے وار کو روک سکتی ہیں لیکن افغان حکام نے اپنی فوجی صلاحیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کردیا ہے۔

طالبان اب تک افغانستان کے 65 فیصد حصے پر قابض حاصل کرچکے ہیں اور انہوں نے 9 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ کابل کے تمام داخلی دروازے بند ہونے کے باوجود شہری خود کو گھٹن کا شکار محسوس کررہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ طالبان کسی بھی وقت دارالحکومت میں داخل ہو جائیں گے۔

شمال مشرقی صوبہ بدخشاں کا دارالحکومت فیض آباد ، افغان حکومت کے لیے ایک تازہ جھٹکا ہے ، جو طالبان کے حملوں کو روکنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔ سقوط فیض آباد کے ساتھ ہی شمال مشرقی علاقے طالبان کے کنٹرول میں چلے گئے ہیں۔

افغان آرمی چیف برطرف

افغان حکومت نے طالبان کی پیش قدمی کی وجہ سے چیف آف آرمی اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ولی محمد احمد زئی کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا ہے۔ احمد زئی کی جگہ جنرل ہیبت اللہ علی زئی کو افغانستان کا نیا آرمی چیف مقرر کیا گیا ہے۔ وہ صرف جون سے اس عہدے پر تھا۔

جنرل ہیبت اللہ علی زئی کو ملک بھر میں بڑھتے ہوئے تشدد سے نمٹنا ہوگا۔ کیونکہ طالبان نے اب اپنی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اب غیرملکی افواج ان کے سامنے نہیں آئے گی۔

افغان صدر اشرف غنی شمال کے سب سے بڑے شہر کے دفاع کے لیے پرانے جنگجوؤں کو جمع کرنے کے لیے مزار شریف گئے ہیں۔ صدر غنی نے نسلی ازبک جنگجو عبدالرشید دوستم اور ممتاز نسلی تاجک رہنما عطا محمد نور سے شہر کے دفاع کے لیے مدد طلب کرلی ہے۔

ایک تجربہ کار کمانڈر دوستم کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ “طالبان کئی بار شمال تک آئے مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔” دوستم پر جنگی جرائم اور دیگر مظالم کا بھی الزام ہے کیونکہ انہوں نے 1990 کی دہائی میں طالبان کے خلاف جنگ لڑی تھی۔

کوئی افسوس نہیں

امریکی صدر جو بائیڈن نے افغان رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اپنے وطن کے لیے لڑیں ، ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے انخلا کے فیصلے پر افسوس نہیں ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ امریکہ نے 20 سالوں میں 1 ٹریلین ڈالر سے زائد خرچ کیے اور ہزاروں فوجیوں کو کھو دیا ہے۔ اس لیے اب انہیں اپنے کیے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔

امریکہ افغان فورسز کو اہم فضائی مدد ، خوراک ، سامان اور تنخواہیں فراہم کر رہا تھا۔ وہ اس مہینے میں اپنی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد وہ بھی بند کردے گا۔ طالبان اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے افغان سرزمین کو بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔

اقتدار واپس نہ ملنے کا خوف

طالبان کی پیش قدمی نے سخت گیر جنگجوؤں کے اقتدار میں واپسی کے امکانات کو ختم کردیا ہے۔ یہ وہ جنگجو تھے جنہوں نے 1990 کے دہائی میں مختلف علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی اپنی حکومت کا اعلان کردیا تھا۔

افغانوں کی نئی نسل جو 2001 کے بعد پیدا ہوئی ہے کو خدشہ ہے کہ خواتین کے حقوق اور میڈیا کی آزادی جیسے شعبوں میں ہونے والی پیش رفت طالبان کے آنے کے بعد ضائع ہو جائے گی۔

اپنی سابقہ ​​حکومت کے دوران طالبان کبھی بھی مکمل طور پر شمال حصے پر کنٹرول حاصل نہیں کرپائے تھے مگر اس مرتبہ وہ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ محفوظ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حکومتی فوج، طالبان کے سابق گڑھ قندھار شہر کے اردگرد طالبان جنگجوؤں سے لڑ رہی تھیں جنہوں نے ہار مانتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان کابل پر کب قبضہ کریں اور اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹ دیں گے؟

Related Posts