افغانستان کے شہر قندوز کی ایک شیعہ مسجد میں نمازیوں پر خودکش بم حملے میں کم از کم 55 افراد جاں بحق ہو گئے، جو کہ امریکی افواج کے ملک چھوڑنے کے بعد سے سب سے بڑا خونی حملہ ہے۔
اس دھماکے میں اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ اس بات کا دعویٰ تو نہیں کیا جاسکتا مگر ایسا لگتا ہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان کو مزید غیر مستحکم کرنے کوشش کی جارہی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں کابل میں ایک مسجد سمیت کئی حملے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کی ذمہ داری عالمی دہشتگرد تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔ کیا طالبان حکومت افغانستان میں دہشت گرد حملوں پر قابو پا لے گی؟
دہشتگردانہ حملہ۔
افغان شہر قندوز میں شیعہ مسجد میں نمازیوں پر ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم 55 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ابتدائی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ مسجد کے اندر خودکش دھماکے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔
قندوز پرونشل اسپتال کے طبی ذرائع نے بتایا کہ وہاں 35 لاشیں اور 50 سے زائد زخمیوں کو لے جایا گیا ہے، جبکہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کا کہنا ہے کہ ابھی تک 20 افراد کی لاشیں اور متعدد زخمیوں کو یہاں منتقل کیا گیا ہے۔
فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ قبول نہیں کی ہے۔ تاہم طالبان کے شدید حریف اسلامک اسٹیٹ گروپ نے اسی طرح کے حملوں کا عندیہ دیا تھا۔
ایک طالبان سکیورٹی عہدیدار بلال کریمی کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کو نشانہ بنانا “انتہائی بزدلی” کی بات ہے۔ امارات اسلامی مجرموں کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑے گی۔
مظلوم کمیونٹی۔
عسکریت پسند اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) گروپ ، جو طالبان کے کٹر حریف ہیں ، نے فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے کے لیے افغانستان میں شیعوں کو بار بار نشانہ بنا رہا ہے۔ شیعہ افغان آبادی کا تقریبا 20 فیصد ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ہزارہ کمیونٹی ہے۔ شیعہ اقلیتی گروہ افغانستان میں کئی دہائیوں سے ظلم و ستم کا شکار ہے۔
اکتوبر 2017 میں داعش نے شیعہ مسجد پر خودکش حملہ جب نمازی کابل میں مغرب کی نماز کے لیے جمع تھے۔ اس خودکش حملے میں کم سے کم 56 افراد جاں بحق جبکہ خواتین اور بچوں سمیت 55 افراد زخمی ہوئے تھے۔
اور اس سال مئی میں دارالحکومت کابل میں ایک اسکول کے باہر ہونے والے بم دھماکوں میں کم از کم 85 افراد جاں بحق ہو گئے تھے، جاں بحق ہونے والوں میں زیادہ نوجوان لڑکیوں تھی ، ہزارہ برادری پر ہونے والے اس حملے میں 300 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
آئی ایس کیا ہے؟
آئی ایس آئی ایس سے وابستہ گروہ نے چھ سال قبل شام سے شمالی عراق تک ملک برطانیہ جتنا رقبہ اپنا کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔ آئی ایس خراسان (آئی ایس کے) 2015 میں معرض وجود میں آئی تھی مگر اس کا دہشتگرد تنظیم آئی ایس آئی ایس کچھ لینا دینا ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ میں آئی ایس کی کامیابی کے عروج میں آئی ایس فرنچائز کے طور پر قائم کی گئی تھی۔
اس گروپ نے افغان سیکورٹی فورسز اور افغانستان میں موجود امریکی فورسز کو متعدد مرتبہ ٹارگٹ کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس گروپ نے اپنی 75 فیصد طاقت کو اکٹھا کرلیا ہے۔ اور اب یہ طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
آئی ایس-کے کے تخمینے کے مطابق ان کے ممبران کی تعداد 1500 سے 2000 کے قریب ہے۔ اس کی سرگرمیاں بنیادی طور پر کابل اور مشرقی صوبوں کے ارد گرد مرکوز ہیں۔ پاکستان کے تاریخی قبائلی علاقے اس کے اصل ٹھکانہ ہیں۔
طالبان کیا جواب دیں گے؟
طالبان اس مرتبہ اپنے آپ کو ایک اعتدال پسند سیاسی جماعت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ طالبان بین الاقوامی برادری کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کررہی ہے۔ تاکہ بین الاقوامی برادری ان کے ملک میں مکمل استحکام کے لیے ان کی مدد کو آگے آئے۔
گذشتہ دونوں طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے افغان دارالحکومت میں شدت پسند اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) گروپ کے ایک سیل کو تباہ کر دیا ہے، اس دعوے کے چند گھنٹوں کے بعد داعش کے ایک مشتبہ حملے میں 5 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
نئی بننے والی عبوری حکومت کو آئی ایس کے دہشت گرد حملوں پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کرنا ہوں گے، جو کہ خطے کے امن اور استحکام کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : شہباز شریف نے نیب آرڈیننس کو پارلیمنٹ اور عدلیہ پر حملہ قرار دے دیا