7 اکتوبر 2023ء کے حملے پر جب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ پر حملہ کرکے حماس کو ختم کرنے کا اعلان کیا تو صرف امریکی حکومت اور یورپ کے چند ممالک ہی تھے جنہوں نے اس کی حمایت کی۔
بالخصوص بائیڈن انتظامیہ تو محض حمایت تک بھی نہ رہی بلکہ باقاعدہ سہولت کار بن گئی۔ تین بحری بیڑے خطے میں پہنچا کر اسرائیل کی چوکیداری پر مامور کردیئے اور مال بردار فوجی طیاروں کی مدد سے میزائلوں اور سمارٹ بموں کی سپلائی بھی شروع کردی۔
یوں غزہ پر گرنے والے بم گرائے بیشک اسرائیل نے ہیں مگر یہ بم عین اسی مقصد کے لئے فراہم امریکہ کرتا رہا۔ نیتن یاہو کے اعلان پر باقی دنیا کا مؤقف یہ تھا کہ غزہ پر حملہ ٹھیک نہ ہوگا۔ وہاں بہت تنگ جگہ میں بہت بڑی سویلین آبادی ہے، نقصان سارا اس کا ہوگا۔ لہٰذا اس سے گریز کیا جائے۔ مگر سب سے اہم رائے ان عسکری ماہرین کی تھی جو آزاد رائے رکھتے ہیں۔ ان میں خود امریکہ اور برطانیہ کے سابق فوجی و انٹیلی جنس افسران بھی شامل ہیں۔
ان افسران نے یوٹیوب چینلز کی مدد سے ویڈیوز اور مضامین کے ذریعے ”سب ٹیک“ جیسی ویب سائٹس پر اسرائیل کو مسلسل متنبہ کیا کہ غزہ میں گھسنا اسرائیل کی مہلک ترین غلطی ثابت ہوگی اور اس سے اسرائیل اپنی تاریخ کا سب سے بدترین سیاسی و عسکری نقصان اٹھائے گا۔ ان ماہرین نے اس کی باقاعدہ تفصیل فراہم کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس وہاں زمین کے اوپر نہیں بلکہ زمین اوڑھ کر بیٹھی ہے۔
وہ زمین کے اندر 170 فٹ گہرائی میں ایک ایسا وسیع و عریض کمپلیکس قائم کرچکی ہے جہاں ہسپتال، گودام، ہتھیار بنانے والے چھوٹے کارخانے، رہائشی بلاکس اور منقطع نہ ہوسکنے والی سپلائی لائن قائم کرچکے ہیں۔ پھر ان کی وہ سرنگیں ہیں جن میں سے کچھ درمیانی گہرائی والی ہیں اور لاجسٹک کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ جبکہ کچھ سرنگیں بالائی سطح پر ہیں جو حملوں کیلئے استعمال ہوں گی۔
صرف یہی نہیں بلکہ ان ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل حسب سابق غزہ پر ایئرسٹرائیکس کرے گا جس سے بڑی عمارتیں ملبے میں بدل جائیں گی۔ عمارتیں جب تباہ ہوتی ہیں تو یہ پوری زمین بوس نہیں ہوتیں بلکہ بالعموم گراؤنڈ فلور بچا رہتا ہے۔ یہی ملبہ حملوں کے لئے حماس کا سب سے بڑا معاون محاذ ثابت ہوگا۔ اور اسرائیل کو اس ملبے میں مستقل ایسے مزاحمت کاروں کا سامنا ہوگا جو اسے نظر نہیں آئیں گے مگر تباہی بڑی مچائیں گے۔
طاقت ایک نشہ ہے اور نشہ عقل سلب کر لیتا ہے پھر چاہے یہ عقل ان یہودیوں کی ہی کیوں نہ ہو جن کے بارے میں مشہور کردیا گیا ہے کہ بڑے ذہین ہوتے ہیں۔سو دانائی کی یہ باتیں نشے کے شکار اسرائیلی و امریکی دماغوں میں جگہ نہ پاسکیں۔ اور گھس گیا اسرائیل غزہ میں۔ جب حملے کے ابتدائی دنوں میں ہی نظر آگیا کہ سب کچھ تو واقعی ویسا ہی ہونا شروع ہوگیا جیسا عسکری ماہرین نے کہا تھا تو امریکہ نے اپنے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو دوحہ بھیج کر قطری حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ الجزیرہ کو اسرائیل کو پڑنے والی مار کی ویڈیوز دکھانے سے منع کرے۔ مگر ہم پہلے ہی کئی کالمز میں بتا چکے اب امریکہ وہ سپر طاقت نہیں رہا جس کا ہر حکم واجب التعمیل ثابت ہوا کرتا تھا۔ قطری حکومت نے انکار کردیا۔ نتیجہ یہ کہ غزہ کی صورتحال کا تجزیہ کرنا آسان ہوگیا۔ اور اسرائیل کا تماشا سربازار لگتا رہا۔
ایک ماہ بعد اسرائیلیوں کو خیال آیا کہ کیوں نہ سرنگوں میں سمندری پانی بھر کر حماس کو باہر آنے پر مجبور کیا جائے؟ جتنی ہیوی ڈیوٹی موٹریں دستیاب ہوسکتی تھیں وہ لا کر غزہ کے ساحل پر نصب کردی گئیں مگر پہلی ہی سرنگ نے یہ خواب بھی چکنا چور کردیا۔ ہر سرنگ اندر سے مختلف فاصلوں پر ایئرٹائٹ آہنی گیٹوں سے لیس تھی۔ سو پانی واپس سمندر میں ہی جانے لگا۔ ایک سرنگ میں اسرائیلی گھسے تو فخریہ سیلفیاں کھنچوا کر سوشل میڈیا پر ڈالنے سے بس فارغ ہی ہوئے تھے کہ حماس نے سرنگ اڑا کر انہیں وہیں دفن کردیا۔
اگر ہم اس پوری جنگ کا مجموعی تجزیہ کریں تو یہ ”ماڈرن آرٹ آف وار“ کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔ ہماری یہ بات نوٹ رکھئے کہ یہ جنگ بہت جلد وار کالجز کے نصاب کا حصہ بنتی نظر آئے گی۔ ایک طرف غزہ تھا جہاں سے فلسطینی نقصان صرف سویلینز کا سامنے آتا رہا جو اسرائیل اور بائیڈن حکومت پر عالمی دباؤ کا باعث بنتا رہا جو ظاہر ہے ایک کامیابی تھی۔ لڑنے والوں کی جتنی ویڈیوز اور تصاویر سامنے آئیں ان میں اسرائیل کے فوجی تو سینکڑوں کی تعداد میں مرتے اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی نظر آتے ہیں مگر کوئی بھی اہم حماس کمانڈر یا رہنماء اسرائیل نہ دکھا سکا جسے وہ مارنے میں کامیاب ہوا ہو۔
غزہ کی تنگ گلیاں اسرائیلی ٹینکوں، بکتربند گاڑیوں اور بلڈوزوں کے ملبے سے بھرتی رہیں۔ اور اپنے ہی آلات کا یہ ملبہ اسرائیل کے لئے ایک مستقل دردسر بنتا رہا۔ اسے گلیوں میں چھوڑتے تو فلسطینی بچوں نے ان پر سیلفیاں کھنچوا کھنچوا کر ٹک ٹاک پر ایک مستقل محاذ قائم کر دینا تھا۔ چنانچہ اسرائیل کو تباہ ہونے والا ہر ٹینک اور بکتر بند اسی دن غزہ سے نکالنا بھی پڑ رہا تھا جو مزید ہلاکتوں کا باعث بنتا۔ کیونکہ ملبہ لے جانے کیلئے آنے والے بھی حماس کا نشانہ بنتے رہے۔ اس جنگ میں ایک نہایت قابل غور حکمت عملی لبنان کی حزب اللہ اور یمن کے حوثیوں کی رہی۔
حزب اللہ نے شمالی اسرائیل کو مستقل نشانے پر رکھ لیا تھا اور وار اسکلیشن مینجمنٹ کی ایک شاندار مثال قائم رکھی۔ اسکلیشن منیجمنٹ میں درحقیقت حملوں کا درجہ حرارت اتنا رکھا جاتا ہے کہ دشمن روز چھوٹے چھوٹے زخم کھاتا رہے، روز اس کا خون رِستا رہے مگر یہ نہ لگے کہ کوئی باقاعدہ جنگ چل رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہوتا یہ ہے کہ کچھ مدت بعد جب کیلکولیشن کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ سو ٹینک تباہ ہوگئے ہیں۔ بہت سے فوجی ہلاک، بہت سے زخمی ہوچکے ہیں، اور املاک کو اربوں کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ اگر آپ اس زاویہ نظر سے صرف حزب اللہ کی کارکردگی کا جائزہ لیں جس کی ویڈیوز سینکڑوں کی تعداد میں دستیاب ہیں۔ اور آپ عسکری شعور رکھتے ہوں تو یہ کہے بغیر رہ ہی نہیں سکتے کہ ویلڈن حزب اللہ۔ شمالی اسرائیل میں حزب اللہ وار اسکلیشن کا حاصل یہ ہے کہ ہلاکتیں اور تباہی اپنی جگہ، صرف یہی دیکھ لیجئے کہ وہاں سے انخلاء کرنے والے ایک لاکھ شہریوں کو اسرائیل کی حکومت ہوٹلوں میں پناہ دینے پر مجبور ہے۔ جس سے اسرائیل کو اربوں ڈالر کے بوجھ کا سامنا ہے۔
تیسری قابل غور چیز یہ ہے کہ جب او آئی سی اجلاس میں اسرائیل کی تیل سپلائی نہ کاٹنے کا فیصلہ ہوا تو اس کے فوراً بعد یمن کے حوثی بحیرۂ احمر میں متحرک ہوگئے اور اسرائیل کی سپلائی لائن کی ایسی کی تیسی پھیردی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس گیم کے پیچھے بس حوثی تن تنہاء ہیں یا زیادہ سے زیادہ ایران ہے تو یہ ایک بڑی غلط فہمی ہوگی۔ ہمارے نزدیک پوری مسلم برادری اس کی پشت پر تھی جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ حوثیوں نے اسرائیل پر جو حملے کئےاس کے لئے سعودی فضائی حدود مستقل استعمال ہوتی رہیں اور سعودی عرب نے اس پر مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی۔ پھر ایک اہم چیز یہ کہ بحیرہ احمر میں سعودی نیوی موجود ہے جو مکمل طور پر لاتعلق ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ قابل توجہ ہے کہ اسرائیلی بحری جہاز دوسرے ممالک کے جھنڈے اور شناخت استعمال کرکے بحیرہ احمر سے گزر رہے تھے اور دور دراز ممالک سے آتے رہے۔ حوثیوں کو یہ کون بتاتا تھا کہ کونسا جہاز درحقیقت اسرائیل کا ہے یا اسرائیل جا رہا ہے؟ سو اس مجموعی صورتحال سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ مسلم ممالک نے پوری کامیابی کے ساتھ خود گڈ کوپ کا رول سنبھال رکھا تھا اور گڈ کوپ بھی وہ جوگویا امریکہ سے روٹھا ہوا بھی تھا اور اس کی ایک نہ مان رہا تھا۔ بس باور یہ کرا رہا تھا کہ ہم جنگ میں ملوث نہیں، ہم تو اچھے بچے ہیں۔ جبکہ حماس، حزب اللہ اور حوثی بیڈ کوپ والا رول پوری کامیابی سے پلے کرتے رہے۔
ایسے میں ایک مستقل رول ان تنظیموں نے بھی سنبھال رکھا تھا جنہوں نے عراق اور شام میں امریکی اڈوں کو مستقل نشانے پر لیا ہوا تھا۔ یہی وہ صورتحال ہے جس میں چار روز قبل اسرائیلی وزیر اعظم کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ چونکہ غزہ میں آنگن بھی ٹیڑھا ہے اور نو من تیل بھی دستیاب نہیں لہٰذا اس کی رادھا مزید نہیں ناچے گی۔ مگر یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ امریکہ اور اسرائیل اس ذلت کو آسانی سے ہضم کر جائیں گے۔ یہ بہت غیر معمولی شکست ہے، اسے وہ ہضم کر ہی نہیں سکتے ورنہ بڑا سیاسی نقصان اٹھائیں گے۔
وہ کوئی ایسا کھیل ضرور کھیلیں گے جس سے ان کی شکست کا داغ دھل سکے۔ اس ضمن میں اسرائیل دو کوششیں تو یوں کرچکا کہ ایک تو بیروت میں حملہ کرکے اس حماس لیڈر کو قتل کردیا جو اسرائیل سے قیدیوں کے تبادلے والے سلسلے میں بات چیت کرتا رہا تھا۔ قیدیوں کے تبادلے کی تمام دستاویزات پر اسی رہنماء صالح العاروری کے دستخط ہیں۔ ظاہر ہے اسرائیل کی خواہش ہوگی کہ حماس اس کا غصہ باقی ماندہ قیدیوں پر نکالے جس سے دباؤ حماس پر شفٹ ہوسکے مگر یہ اس کی بھول ہے۔ اسی طرح ایران کے شہر کرمان میں جنرل قاسم سلیمانی کی برسی پر ہونے والا حملہ بھی اسرائیل نے ہی کرایا ہے۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی داعش شام میں امریکہ اور اسرائیل کی آلہ کار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیم فلسطین کی موجودہ صورتحال سے مکمل لاتعلق رہی۔ اور اب یہ متحرک ہوئی بھی ہے تو اسرائیل کی سہولت کاری کیلئے۔ کرمان میں دہشت گرد حملے کے ذریعے اسرائیل نے ایران کو ایسے ردعمل پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے جس سے ایران پر امریکی حملے کا جواز میسر آسکے اور ساری توجہ غزہ کی شکست سے ہٹ کر تہران شفٹ ہوجائے۔ مگر ایرانیوں نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ وہاں کی موجودہ رجیم اپنے پورے دور میں مسلسل حالتِ جنگ جیسی کیفیت میں رہی ہے جس سے اسے ایسی صورتحال میں درست فیصلوں کا ایک وسیع تجربہ میسر آچکا ہے۔ سو ایران کسی بھی صورت ایسا اقدام نہیں کرے گا جس سے انگلی اس پر اٹھے۔ اس کے برعکس اس کے تحمل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں خود اسرائیل پر ہی دباؤ مزید بڑھتا جائے گا۔
وہ دباؤ جو غزہ سے اسرائیلی رادھا کے فرار کے بعد سے یہ شکل اختیار کر گیا ہے کہ اب بعض عالمی ماہرین یہ تک کہہ رہے ہیں کہ ”دو ریاستی فارمولہ بھول جائیں۔ اب تو صورتحال یہ بنتی جا رہی ہے کہ ہمیں اس سوال پر غور کرنا ہوگا کہ اسرائیل کے بعد والا مشرقِ وسطی کیسا ہوگا؟ کیونکہ اسرائیل کی موجودہ شکست نے اس کے وجود کو ہی خطرے سے دوچار کردیا ہے“۔ ماہرین یہ بات محض جذباتی طور پر نہیں کہہ رہے۔ بلکہ اس کے پیچھے ٹھوس وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ اسرائیلیوں کا پچچھلے چند سالوں سے یہ خیال تھا کہ اب اسرائیل ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوگیا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے مابین ہائی ٹیک آہنی دیوار قائم ہوچکی لہٰذا اب کوئی خود کش بمبار نہیں آسکتا۔ مگر 7 اکتوبر کو یہ آہنی دیوار کسی دیہاتی کی کچی دیوار سے زیادہ کچھ نہ ثابت ہوئی۔ حماس کے گوریلے گھنٹوں تک اسرائیل میں آزادانہ گھوم کر اپنا مشن مکمل کرتے رہے۔ اور واپسی پر بڑی تعداد میں یرغمالی لا کر گویا نیتن یاہو سے کہا کہ ”اب آؤ انہیں لینے“۔ اور یہی وہ دعوت نامہ تھا جس نے غزہ میں اسرائیل کو سات اکتوبر سے بھی زیادہ بڑی بربادی و شرمساری سے دوچار کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل کے شہری تو پہلے ہی دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ ان کی اکثریت یورپ سے ہجرت کرکے آئی تھی اور انہوں نے ان ممالک کی شہریت بھی رکھی ہوئی ہے۔ چنانچہ 7 اکتوبر کے بعد سے اسرائیلیوں کی ایک بہت بڑی تعداد اسرائیل مستقل بنیاد پر چھوڑ کر چلی گئی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی مستقل جاری ہے۔ ابھی دو روز قبل ہی اب تک کی آخری فلائٹ وہاں سے گئی ہے۔ یہ محض انخلاء نہیں بلکہ مستقل ہجرت ہے جو انہیں اس لئے کرنی پڑ رہی ہے کہ اب خود کش بمبار نہیں، حماس کے راکٹ جاتے ہیں اور اسرائیل کے ہر کونے تک جاتے ہیں۔ ساری رات اسرائیل میں سائرن بج رہے ہوتے ہیں۔ لوگ سو نہیں پاتے جس سے نفسیاتی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ خوف کی اس فضاء میں کون رہے گا؟ اور کیوں رہے گا؟ اور یہی حماس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ذرا غور تو کیجئے کہ اہل غزہ کو اسرائیل اور امریکہ غزہ سے نکل کر مصر جانے کا کہتے رہے اور وہ جمے رہے کہ مر جائیں گے، اپنی زمین نہیں چھوڑیں گے۔ جبکہ اسرائیلیوں کو اسرائیلی حکومت ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہہ رہی ہے کہ اپنا ملک چھوڑ کر مت جاؤ مگر فلائٹیں ہیں کہ قطار در قطار نکل رہی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بے جا نہیں کہ کیا اسرائیل اپنا وجود برقرار رکھ پائے گا؟