کیا بدترین جمہوریت بھی اچھی ہوتی ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہمارے ہاں چونکہ سول اور فوجی دونوں ہی طرز کی حکومتیں رہی ہیں سو یہ بحث بھی ہمیشہ جاری رہی ہے کہ فوجی حکومتوں کی کارکردگی بہتر تھی یا سول حکومتوں کی؟

اس بحث میں سول حکمرانی کے حامیوں کا ہمیشہ ہی یہ کہنا رہا ہے کہ بدترین جمہوریت کو بھی بہترین آمریت پر ترجیح حاصل ہے۔ جانتے ہیں اس ڈھکوسلے کا سہارا کیوں لینا پڑتا ہے؟ یہ سہارا اس لئے لینا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی مثالی سول حکومت ایک بار بھی قائم نہیں ہوئی۔

اس شرمناک صورتحال کے نتیجے میں چونکہ یہ رائے جڑ پکڑ سکتی ہے کہ جب جمہوریت ہمیں ایک بار بھی کوئی فائدہ نہ پہنچا سکی تو پھر تو اسے ”فیل نظام“ سمجھا جانا چاہئے، اور کچھ اور سوچنا چاہئے۔ چنانچہ اس خطرناک عدم اعتماد سے بچنے کے لئے سیاستدانوں اور ان کے حامی دانشوروں نے ہمیشہ اس تنکے کا سہارا لیا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے اچھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز ہے ہی بدترین وہ “اچھی” کیسے ہوسکتی ہے؟ خبیث اپنی خباثت کے ہوتے شریف کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر ہمارے جمہوریت پسندوں کا شعور اس پستی میں جا گرا ہے کہ ان کے پاس جمہوریت کے دفاع کے لئے اس احمقانہ دعوے پر انحصار کے سوا کوئی آپشن نہیں تو اس شعور پر لعنت بھیجنی چاہئے۔

ہماری نظر میں اصل مسئلہ یہ نہیں کہ جمہوریت ہر بار فیل ہوتی رہی ہے۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم بطور قوم فیل ہوتے آرہے ہیں۔ ہمارے ہاں دیانت روزِ اوّل سے ناپید ہے۔ سو بددیانتی کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت ہی نکلتا رہا ہے۔ آپ پہلی دستور ساز اسمبلی کا حال ہی دیکھ لیجئے۔ اس اسمبلی کی مدت چونکہ آئین بنتے ہی ختم ہوجانی تھی تو سیاستدانوں کی اس نسل نے آئین سازی کو بھی شیطان کی آنت بنا ڈالا۔ جس نسل کا سرمایہ افتخار یہ تھا کہ ہم پاکستان کے خالق ہیں۔ وہ اسمبلی سات سال تک آئین آئین کا بندر تماشا کھیلتی رہی۔ فی الحقیقت اس کام کے لئے کتنی مدت درکار تھی؟ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد 1973ء کے آئین کی تخلیق کا مرحلہ آیا تو صرف ایک سال میں یہ معرکہ سر کرلیا گیا۔

اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے وہ سیاستدان بھی بدترین درجے کے بدنیت لوگ تھے جو یہ فخر کرتے نہیں تھکتے تھے کہ ہم پاکستان کے خالق ہیں، تاریخ ہمارا ذکر سنہرے الفاظ میں کیا کرے گی جبکہ ان کی اخلاقی و سیاسی پستی کا یہ عالم تھا کہ صرف اسمبلی رکنیت کے مزے لینے کے لئے سات سال تک آئین سازی کو طول دیتے رہے۔ اگر اس اسمبلی کی مدت آئین سازی سے مشروط کرنے کی بجائے کسی معین مدت سے مشروط کردی گئی ہوتی تو آگے چل کر شاید مارشل لا کی نوبت ہی نہ آتی۔ جب ایک بار جرنیلوں نے یہ دیکھ لیا کہ ملک کا مفاد سائڈ پر رکھ کر سیاستدان ذاتی مفاد کا کھیل کھیل رہے ہیں تو پھر ان کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ اپنے کام سے کام رکھتے؟ انہوں نے یہی سوچا کہ جب ذاتی ایجنڈے ہی ترجیح ہیں تو پھر یہ ذاتی ایجنڈے ہمارے کیوں نہ ہوں؟ اور یوں شروع ہوگئی سیاست میں فوج کی مداخلت۔

کوئی صادق و امین قسم کی جمہوریت یہاں آئی ہی کب ہے کہ جرنیلوں نے اس کا ریپ کیا ہو؟ پچھلے چھہتر سال سے جاری سول عسکری کشمکش دراصل بددیانتی کا ہی ٹورنامنٹ رہا ہے اور اس ٹورنامنٹ میں سیاستدانوں کی اخلاقی پوزیشن اس قدر شرمناک چلی آرہی ہے کہ انہیں یہ گھٹیا سہارا لینا پڑتا ہے کہ وہ بدترین ہونے کے باوجود بھی اچھے ہیں۔ لہٰذا انہی کو ترجیح بنائے رکھو۔ اصولی طور پر تو بدترین کو تو جوتے کی نوک پر رکھنا چاہئے۔ اور یہ خود کو بدترین ہونے کے باوجود ہماری ترجیح بنانے پر مصر ہیں؟ سوال یہ ہے کہ آپ کا بدترین ہونا اتنا ضروری کیوں ہے کہ آپ بہترین ہونے پر آمادہ ہی نہیں؟

پاکستان کی پوری سول حکمرانی کی قبریں کیا کھودنا ! آپ حالیہ سالوں میں ہی ان سیاستدانوں کے کرتوت دیکھ لیجئے۔عمران خان نے اس ملک کی معیشت ہی نہیں سیاست اور اخلاقیات تک تباہ کر ڈالی مگر اسے سیاستدانوں کے اصول کے مطابق بدترین ہونے کے باوجود اچھا ماننا پڑے گا۔ عمران خان کے بعد اس ملک کی تاریخ کا دوسرا بڑا نالائق ترین وزیر اعظم شہباز شریف مسلط ہوا تو اس کی نااہلی اس درجے کی تھی کہ نہ تو معیشت سنبھال سکا اور نہ ہی عمران خان کے خلاف کوئی ایکشن لے سکا۔ وہ اپنے مذہبی، سیکولر اور قوم پرست اتحادیوں کے ساتھ صرف اس لئے اقتدار سے چپکا رہا کہ بچپن سے وزیر اعظم بننے کا شوق تھا۔ مگر بے شرموں کے اس ریوڑ کو بھی بدترین ہونے کے باوجود اچھا ماننا پڑے گا کیونکہ ان کا خود ساختہ ڈھکوسلہ ہم سے یہی تقاضا کرتا ہے۔

آپ اس لمحۂ موجود کو ہی لے لیجئے۔ ملک بدترین قسم کے معاشی بحران سے دوچار ہے۔ وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہی یہ ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو الیکشن کروا کر فریش مینڈیٹ والی حکومت کو اقتدار منتقل کیا جائے، اور وہ حکومت معیشت کو سنبھالے۔ لیکن یہ تو ملک کا مفاد ہے ناں! ملک کا مفاد یہاں کب ترجیح رہا ہے؟ سو اس بار بھی وہی ہوگا جو ہمیشہ ہوا ہے۔ اگر ملک اور نواز شریف کا مفاد آپس میں متصادم ہے تو پھر نوازشریف کا مفاد ترجیح حاصل کرے گا۔ پہلے نواز شریف کے کیسز کا فیصلہ ہوگا۔ پھر الیکشن ہوگا تا کہ نواز شریف بھی اس میں حصہ لے سکے۔

سوال یہ ہے کہ نواز شریف کے لئے الیکشن ٹالنے کی کیا ضرورت ؟ یوں بھی تو ہوسکتا تھا کہ اکتوبر میں انتخابات کروا لئے جاتے۔ اگر نون لیگ جیت جاتی تو وہ حکومت بنا لیتی اور نواز شریف فوری سماعت کی درخواست کے ساتھ اپنے کیسز سے نمٹ لیتے۔ جب بری ہوجاتے تو ضمنی الیکشن لڑ کر آجاتے اسمبلی اور بن جاتے وزیر اعظم۔ دنیا کے کئی ممالک میں اسی طرح ہوا ہے۔ طیب اردگان اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ مسئلہ بس یہ ہے کہ نواز شریف کو یہ ڈر لاحق ہے کہ اگر ایک بار الیکشن ہوگئے تو پھر شاید ان کے کیسز طول پکڑ جائیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ خوف انہیں لاحق کیوں ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ وہ جانتے ہیں پاکستان کا پولیٹکل سسٹم ایک بددیانت نظام ہے۔ اور بددیانتوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا میاں صاحب کا تقاضا ہے کہ مہنگائی سے پستی عوام اور ملک کا مفاد دونوں جائیں بھاڑ میں، الیکشن تو تب ہی ہوگا جب ان کا مفاد پورا ہوگا۔ اب نواز شریف کی ضد تو ماننی پڑے گی۔ جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ بدترین جمہوریت بھی اچھی ہوتی ہے۔

کیا واقعی؟ کیا ہمیں ہمیشہ بس اس لئے پسنا پڑے گا کہ بدترین جمہوریت بھی اچھی ہوتی ہے؟ کیا ہمارا سیاستدان ہمیشہ بدتر رہنے پر ہی مصر رہے گا؟ اگر یہ بدتر مخلوق بہتر ہونے پر آمادہ ہی نہیں تو اسے عبرت کی مثال کیوں نہ بنایا جائے؟ انہیں ان کے گریبانوں، پگڑیوں اور داڑھیوں سے پکڑ کر سڑک پر کیوں نہ گھسیٹ لیا جائے؟

Related Posts