پاکستان اور امریکا کے تعلقات کیوں کشیدہ ہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان اور امریکا کے تعلقات کیوں کشیدہ ہیں؟
پاکستان اور امریکا کے تعلقات کیوں کشیدہ ہیں؟

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک مشکل مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کا حالیہ دورہ پاکستان اہمیت کا حامل تھا۔

پاک امریکہ تعلقات دنیا میں سب سے زیادہ باہمی شراکت داریوں میں سے ایک ہیں۔ امریکی کانگریس کے اندر اس بات پر بحث جاری ہے کہ پاکستان سے کیسے نمٹا جائے۔ امریکی سینیٹ میں ایک مسودہ بل پہلے ہی پیش کیا جا چکا ہے جس میں افغان طالبان کی فتح میں مبینہ کردار کے لیے پاکستان کے خلاف سخت کارروائیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

امریکی سفارت کار کا دورہ بھارت:

ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ، وینڈی شرمین نے ممبئی میں ایک عوامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں امریکہ پاکستان تعلقات کے نئے پیرامیٹرز کو واضح کیا، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ بھارت کے ساتھ واشنگٹن کے گہرے تعلقات میں کوئی مماثلت نہیں ہوگی۔

شرمین نے کہا کہ اسلام آباد کا دورہ ایک خاص اور تنگ مقصد کے لیے تھا، جس میں افغانستان اور طالبان کے حوالے سے بات چیت ہونا تھی۔انہوں نے مزید کہا، ”ہم اپنے آپ کو پاکستان کے ساتھ وسیع تعلقات قائم کرتے ہوئے نہیں دیکھ رہے۔

شرمین کا دورہ پاکستان:

امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین جمعرات کو مذاکرات کے لیے اسلام آباد پہنچی تھیں جس میں انہوں نے افغانستان کی موجودہ صورت حال اور کابل کے نئے طالبان حکمرانوں کے لیے مربوط نقطہ نظر تیار کرنے کی امریکی کوششوں پر توجہ دی تھی۔

امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے پاکستان پہنچنے کے بعد اپنی لب و لہجہ نرم کرلیا تھا، کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ پاکستان کے بغیر افغانستان کا مسئلہ امریکہ کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ امریکا جانتا ہے کہ افغانستان کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے پاکستان کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں۔

امریکا میں پاکستان کے خلاف اُٹھنے والی آوازیں اور سینیٹ میں پیش کیا جانے والا بل یہ بنیادی طور پر پاکستان کے لیے اچھی خبر نہیں ہے اور نہ ہی امریکہ کے لیے۔

پاکستان کے خلاف پابندیاں:

22 ریپبلکن سینیٹروں کا ایک گروپ جس نے امریکی سینیٹ میں افغان جنگ میں اسلام آباد کے مبینہ کردار کی تحقیقات کا بل پیش کیا،جوپاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔

اگرچہ امریکہ کی طرف سے مطالبات واضح طور پر بیان نہیں کیے گئے ہیں، بعض فضائی اور زمینی مواصلاتی راہداریوں اور دہشت گردی کا مقابلہ شاید وہ بنیادی یقین دہانیاں ہیں جن کی امریکہ پاکستان سے توقع کرتا ہے۔

وسیع پیمانے پر تعاون:

امریکہ کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ افغانستان میں دوبارہ دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بن جائے جو امریکہ کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے امریکہ کو پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہوگی،چاہے وہ اسے فضائی جگہ دینے یا انٹیلی جنس شیئر کرنے کی صورت میں ہو۔

واشنگٹن میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان اور دیگر مسائل پر اختلافات کے باوجود بائیڈن انتظامیہ پاکستان کے ساتھ اپنی مصروفیات جاری رکھے گی۔

ان ذرائع کے مطابق، مستقبل کے رابطوں میں امریکی صدر جو بائیڈن کی وزیر اعظم عمران کو انتہائی اہم ٹیلی فون کال شامل ہو سکتی ہے۔ اور نچلی سطح پر مزید دو طرفہ مذاکرات بھی ہو سکتے ہیں۔

Related Posts