تہران کیوں نہیں ؟/ آخری حصہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جب ایران نے ہی عربوں سے دوستی کرلی تو بشار پھر اس حد تک گیا جس حد تک کوئی بھی عرب جاتا۔ اور وہ حد یہ تھی کہ بشار نے ایرانیوں کے ساتھ اپنے تعلق کو 2011ء سے قبل والی پوزیشن کی جانب لے جانا شروع کردیا۔

خود ایران کے ذمہ دار حلقے تسلیم کر رہے ہیں کہ پچھلے دو تین سال سے بشار نے شام میں ہمارا عمل دخل بہت محدود کردیا تھا۔ حتٰی کہ ایچ ٹی ایس کی حالیہ یلغار کے حوالے سے بھی ایرانی کہہ رہے ہیں کہ چھ ماہ قبل ایرانی رہنماء علی خامنہ ای نے اعلٰی ایرانی نمائندہ (غالباً علی لاریجانی) کو شام بھیجا کہ جاکر بشار کو سمجھائیے کہ ترکی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ بشار نے یہ ملاقات ہی نہ کی۔ پھر ایک ماہ قبل دوبارہ بشار کو پیغام بھیجا گیا کہ حملہ کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ بشار نے جواب دیا “ہونے دو”

اب یہاں تین نکتے بہت ہی قابل توجہ ہیں۔ پہلا یہ کہ بشار کو 2011ء میں ایرانی مدد کی ضرورت پڑی۔ ایران نے وہ مدد توقع سے بھی زیادہ فراہم کر دی۔ اور صلہ بھی ضرورت سے زیادہ پایا۔ لیکن اس پورے عرصے میں بشار پہلی بار تہران کے دورے پر 2019ء میں جاتا ہے۔ مفادات کے اس گہرے اشتراک کے باوجود بشار نے تہران یاترا میں 9 سال کیوں لگا دئیے؟سال نہ سہی ہر دوسرے سال تو ایک وزٹ ہونا چاہئے تھا۔ بشار تہران جانے سے گریزاں کیوں تھا؟

دوسرا نکتہ یہ کہ جب ایران نے سعودی عرب سے دوستی کرلی تو بشار نے فوراً ترجیحات بدل لیں۔ اس نے ایرانیوں کو بیک فٹ پر دھکیل کر عربوں کے قریب ہونے کی حکمت عملی اختیار کرلی۔ کیوں؟ کیونکہ جب آپ عرب ہیں تو پھر آپ صرف عرب کیمپ میں ہی ہوسکتے ہیں۔ عرب ہوتے ہوئے ایران کے آپ دوست ہوسکتے ہیں مگر اس کے کیمپ میں نہیں ہوسکتے۔ آپ کا کیمپ آپ کا گھر اور آپ کی شناخت ہوتا ہے۔ جب سوال کلچر کا آئے گا تو پھر نہ تو کوئی فارسی کسی عرب کیمپ میں ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی عرب کسی فارسی کیمپ میں۔بشار کو معلوم تھا کہ گھر اس کا عرب دنیا ہی ہے۔ سو یہ بیجنگ والے دوستی معاہدے کا ہی نتیجہ ہے کہ ایران کو شام سے محروم ہونا پڑا۔

تیسرا اور سب سے اہم نکتہ یہ کہ شامی فوج کی مدد کے لئے روس 2015ء میں آگے آیا تھا۔ تب تک شامی فوج نے دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ وہی شامی فوج اور وہی بشار گزشتہ ماہ مقابلے کے لئے رنگ میں ہی نہ اترے۔ کیوں؟ کیونکہ بشار جانتا تھا کہ مقابلے کے لئے ایرانی مدد لینی پڑے گی اور وہ اس کے لئے مزید تیار نہ تھا۔ ایرانی تو چھ ماہ سے منتیں کر رہے تھے۔ یہ بشار ہی تھا جو ان کی مدد لینے کو تیار نہ تھا۔ وہ جہاز میں بیٹھا اور چپ چاپ روس چلا گیا۔ اگر وہ ایران کا ایجنٹ تھا تو ماسکو میں کیوں جا بسا؟ تہران کیوں نہیں؟

بجا طور پر یہ کاؤنٹر سوال بھی بنتا ہے کہ اگر عرب کیمپ ہی بشار کا گھر تھا تو وہ ماسکو کی بجائے ریاض میں کیوں نہ جابسا؟ جواب سیدھا بھی ہے اور سادہ بھی۔ جب آپ امریکہ کی ٹارگٹ لسٹ پر ہوں تو پھر آپ کسی سپر طاقت کے دارالحکومت میں ہی محفوظ رہ سکتے ہیں۔

تین روز قبل بشار الاسد کی ایک وضاحت سامنے آئی ۔ اس میں ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ اقتدار کی منتقلی کی تیاری کر رہے تھے۔ سپیچ رائٹر کو تقریر لکھنے کا بھی کہہ دیا تھا۔ پیش آنے والے واقعات سے یہ بات مطابقت رکھتی ہے۔ کیونکہ بشار ایس ٹی ایچ کا مقابلہ کر ہی نہیں رہا تھا۔ ہر شہر کی طرح دمشق بھی اس نے کسی مقابلے کے بغیر دیدیا۔ صورتحال ابھی تک مکمل واضح نہیں۔ سو صرف اندازے لگائے جاسکتے ہیں۔ یہ سوال بھی اندازے کا ہی تقاضا کرتا ہے کہ آخر بشار چاہتا کیا تھا؟ اس نے بالکل ہی غیر متوقع پر ایسا کیوں کیا؟

ہمارے خیال میں بشار الاسد کو یہ اندازہ تو اچھی طرح تھا کہ اگر وہ نہ ہوں گے تو شام میں ترکی کا ہی عمل دخل ہوگا۔ جس کا سیدھا نتیجہ یہ ہوگا کہ پچھلے 13 برس میں ایران نے وہاں جتنی جڑیں پھیلائی ہیں۔ ان جڑوں کو اردگان کسی صورت نہیں چھوڑے گا۔ وہ شام میں بس جانے والے غیرملکیوں کو بھی نکالے گا۔ اور جو لاکھوں شامی ترکی میں مہاجر ہیں انہیں بھی گھر واپس لائے گا۔ یوں شامی ایک بار پھر اپنے گھروں میں ہوں گے اور ایرانی و عراقی گھس بیٹھیے باہر۔ بشار عرب تھا۔ اس نے جاتے جاتے اپنی سب سے بڑی غلطی ٹھیک کرنے کی راہ خود ہموار کی۔ گڑبڑ بس یہ ہوئی کہ اقتدار کی پر امن منتقلی نہ ہوسکی۔

اب یہاں کچھ کڑیاں غائب ہیں۔ وہ کون تھا جس نے اقتدار کی اس پرامن منتقلی کو ناکام کرکے اسرائیل کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ شام کی تمام عسکری تنصیبات تباہ کردے اور اس کے ایک بڑے زمینی ٹکڑے پر قبضہ کرلے؟ اقتدار کی پر امن منتقلی کی صورت شامی وحدت اور اس کے ادارے محفوظ رہتے۔ صرف یہی نہیں بلکہ فلسطین کاز بھی محفوظ رہتا۔ تو وہ کون تھا جو ایسا نہیں چاہتا تھا؟

حقیقت تو آنے والا وقت ہی واضح کرے گا لیکن ہمیں ترک نیشنلسٹ لیڈر طیب اردگان پر شک ہے۔ شام کے ایک بڑے ٹکڑے پر وہ ماضی میں بھی اپنا دعویٰ جتا چکے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ شامی سرزمین میں سے اپنا حصہ لینے میں پہل کی اجازت اردگان نے اسرائیل کو اسی سوچ کے تحت دی ہے کہ اس کے نتیجے میں کچھ عرصے بعد یہ اپنا حصہ بھی یہ کہہ کر وصول کر پائیں “اچھا تو باقی پھر میں ہی رکھ لیتا ہوں”۔ جلدبازی یہ اس لئے نہیں کر رہے کہ پہلے کردوں سے نمٹنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے انہیں انتظار ہے ڈونلڈ ٹرمپ کا۔ کیونکہ انہیں توقع ہے کہ ٹرمپ کردوں کے سر پر تنی امریکی چھتری کھینچ لے گا۔ یوں ان بے امان کردوں کا قتل عام اردگان کے لئے آسان ہوجائے گا۔

سچ پوچھئے تو وہ ملک جس کا نام شام تھا اب وجود نہیں رکھتا۔ ملک مخصوص جغرافیے، قوم، کلچر، اور آئین سے عبارت ہوتا ہے۔ شام کا یہ سب کچھ تتربتر ہے۔ اس کی کچھ زمین قبضہ ہوچکی، اور کچھ جلد قبضہ ہوجائے گی۔ اس کی قوم بکھری پڑی ہے، اور اس کا آئین وجود نہیں رکھتا۔ حتٰی کہ اس کا تو کلچر بھی ایران کی برکت سے مکمل ملاوٹی ہوچکا۔ اس سب کے لئے سانحہ لفظ بہت ہی کم ہے۔ مگر اسی لفظ پر گزارہ کرنا پڑے گا۔

سوال یہ ہے کہ یہ سانحہ کیوں وجود میں آیا؟ وہ کیا غلطیاں تھیں وقت نے جن کی 14 برس پرورش کی؟ سب سے پہلی غلطی شامی سنیوں کی تھی جو تیونس کے ایک واقعے سے متاثر ہوکر اپنے حصے کا “عرب سپرنگ” برپا کرنے چلے۔ یہ دعویٰ محض لغو اور نری بکواس ہے کہ بشار نے اپنی قوم پر بڑے مظالم کر رکھے تھے۔ 2010ء سے پیچھے مظالم کی کوئی داستان نہیں ملتی۔ جبکہ 2011ء کے بعد بشار نے اپنے باغیوں کے ساتھ وہی کیا جو پاکستان، ترکی اور روس سمیت ہر ملک اپنے باغیوں کے ساتھ کرتا آیا ہے۔ کیا طیب اردگان کردوں کو آئی لَو یو کے گلابی خطوط بھیجتا ہے؟

دوسری غلطی سعودیوں کی تھی جنہوں نے بشار کے خلاف انگڑائی لیتے عرب سپرنگ کو عسکری ٹچ دینے کا فیصلہ کیا۔ تیسری غلطی بشار کی تھی کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ایرانیوں کو لایا۔ اگر وہ اور ان کے ابا چالیس سال حکومت کرنے کے باوجود وہ ایسی فوج کھڑی نہیں کرپائے تھے جو بغیر کسی بیرونی مدد کے دہشت گردی کا سر کچل سکے تو ایسا اقتدار کس کام کا؟ اس سے تو اچھا تھا کسی پریس کلب کے صدر بن جاتے۔

دہشت گردی سب سے سنگین شکل میں پاکستان میں رہی ہے۔ کیا ہمیں کبھی کسی غیرملکی فوج کی مدد کی ضرورت پڑی؟ ہمارے پاس تیل کا کوئی کنواں نہیں، مقروض قوم ہیں۔ لیکن فوج ایسی ہے کہ ہر خطرے کا مقابلہ اپنے دم پر کر لیتی ہے۔ دہشت گرد ہی کیا ہم تو ابھینندن اور کلبھوشن سے بھی نمٹ لیتے ہیں۔بھارت کا وزیر اعظم چار سال تک گوروں کو یہ چورن بیچتا ہے کہ اس کا ملک علاقے کی سپر طاقت ہے۔ پھر پانچویں سال وہی وزیر اعظم انہی گوروں سے کہتا ہے “ہمیں پاکستان سے خطرہ ہے”۔ گورے کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔

واپس غلطیوں کی طرف لوٹتے ہیں۔ چوتھی بڑی غلطی ایران کے انقلابیوں کی ہے۔ ان کی انقلاب ایکسپورٹ کرنے کی پالیسی ہزیمت کا پینتالیس سالہ ریکارڈ رکھتی ہے۔ مگر صرف شام کا ہی جائزہ لے لیجئے۔ یہ 2011ء میں شام پر قبضہ کرنے گئے، اور 2024ء میں لبنان بھی کھو کر لوٹ آئے۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری صرف دس دن میں فارغ ہوگئی۔ لبنان سے اس کا واحد زمینی رابطہ براستہ شام تھا ، جو اب نہ رہا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ ذرا سوچئے جنہیں ایران نے شام میں بسایا ہے، انہیں اگلے زندہ چھوڑیں گے؟ سو ایران کو توسیع پسندی کی یہ پالیسی اب ترک کرنی ہوگی۔ “فارس” دوبارہ وجود میں نہیں آسکتا۔ اب ایران ہی ہے۔ اسی پر گزارہ واحد آپشن ہے ! (ختم شد)

Related Posts