دہشت گرد تنظیم داعش جے یو آئی کے علماء کو کیوں نشانہ بنا رہی ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

باجوڑ میں جمعیت علماء اسلام کے ورکرز کنونشن میں خودکش دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد پچاس سے متجاوز ہوچکی ہے، جبکہ مختلف اسپتالوں میں 83 زخمی زیرِعلاج ہیں۔

سرکاری اداروں کے ذمہ داروں اور تجزیہ کاروں کے اب تک سامنے آنے والے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو واقعے میں داعش کے پی کے کے ملوث ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے، سوال یہ ہے کہ آخر داعش کے دہشت گردوں کی جے یو آئی جیسی دینی تنظیم اور علماء کی جماعت کے ساتھ کیا دشمنی ہے اور وہ کیوں جمعیت علمائے اسلام پر حملے کر رہی ہے؟

یہ بھی پڑھیں:

سی پیک ۔۔سست روی ۔۔ملٹری ڈپلومیسی ۔۔ اک نیاولولہ

اس سوال کے جواب میں معروف سفارتکار اور افغان امور کے ماہر رستم شاہ مہمند نے نجی ٹی وی “آج” سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جے یو آئی کے نشانے پر ہونے کی وجہ داعش اور جے یو آئی کے درمیان نظریاتی اختلافات کا ہونا ہے۔ جس طرح افغانستان میں افغان طالبان کے مدمقابل داعش ہے، اسی طرح پاکستان میں داعش کو سب سے بڑا مسئلہ جے یو آئی سے ہے۔ اس لئے وہ جہاں اور جتنا ان کو نشانہ بنا سکتے ہیں وہ بناتے ہیں۔

رستم شاہ مہمند کے مطابق ایسے حملوں کی دو وجوہات ہوتی ہیں، ایک مدمقابل کو جانی نقصان پہنچانا۔ دوسرا معاشرے میں ہیجان اور خوف پیدا کرنا تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ دوسرے نظریات کے حامل شخص کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

رستم شاہ کا یہ بھی ماننا تھا کہ داعش کے پی کے پاس تعداد زیادہ نہیں اور نہ ہی عوام میں ان کی کوئی مقبولیت ہے، بلکہ یہ ٹی ٹی پی (کالعدم تحریک طالبان پاکستان) کے کچھ لوگ ہیں جو سرحد کے آر پار کچھ حمایت یافتہ افراد کی بدولت سرحد کے اس پار اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ مخالف نظریات رکھنے والوں کو زک پہنچا کر اپنی آئیڈیالوجی کا پرچار کرتے رہیں۔

خراسان ڈائری کے بانی صحافی افتخار فردوس نے بھی اسے نظریات کی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ داعش اور جے یو آئی کا معاملہ تین نکات پر مبنی ہے۔ایک اس کا آغاز کہ جب داعش خراسان بن رہی تھی تو ان کے خلاف پہلا فتوی جے یو آئی کے رہنماؤں نے دیا تھا، جس میں داعش کو خوارج کی جماعت کہا گیا تھا۔

دوسرا معاملہ جے یو آئی افغان طالبان کی حامی اور دیو بند مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے جو داعش کے مطابق واجب القتل ہیں، داعش کے دہشت گردوں کی اکثریت سلفی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ تیسری بات داعش کا یہ کہنا کہ خلافت کی بجائے جمہوریت پر یقین رکھنے والے خوارج ہیں اور جے یو آئی چونکہ جمہوریت اور نیشنل ازم پر یقین رکھتی ہے اس لئے یہ خوارج ہیں اور ان کا قتل واجب ہے۔

افتخار فردوس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے علاوہ داعش خراسان کے سربراہ ڈاکٹر شہاب المہاجر کا یہ بھی ماننا تھا کہ ان کی جماعت کے لوگوں کے دو ٹارگٹ ہونے چاہئیں، ایک وہ قبائلی رہنما جو آپ کے خلاف کھڑے ہوجائیں اور دوسرے وہ مذہبی اسکالر جو آپ کی مخالفت کریں اور ان ساری باتوں کی بڑی تفصیل سے وضاحت داعش خراسان کے سربراہ ڈاکٹر شہاب المہاجر کی پشتو زبان میں شائع ہونے والی کتاب ”Asabato Jagara — The war of nerves“ میں ملتی ہے۔

افتخار کا یہ بھی کہنا تھا کہ باجوڑ کا واقعہ چونکہ بڑا تھا اس لئے سب کی نظر میں آگیا لیکن اگر ہم 2016 میں پشاور میں جے یو آئی کے رہنما کے قتل سے بات شروع کریں تو اب تک اس جماعت سے تعلق رکھنے والے 42 افراد کو ٹارگٹ کیا گیا ہے کہ جن میں سے 23 کا تعلق باجوڑ سے ہے ۔

جے یو آئی پر حملے سے متعلق ایک اور تھیوری جو کل سے زبان زد عام ہے کہ عام انتخابات کی تاریخوں پر بات کے بعد حملے شروع ہوتے ہیں، خیبر پختونخوا کی دوسری بڑی جماعت کو ٹارگٹ کرنا کیا الیکشن میں اس کو باہر رکھنے کی پلاننگ کا حصہ ہے، اس کے جواب میں رستم شاہ کا کہنا تھا کہ اگر کچھ دیر کے لئے اس تھیوری کو مان بھی لیں تو ان کے نزدیک یہ تو جے یو آئی کے فائدے میں ہے اور وہ اس نقطے کو عوام میں لے جاکر کیش کر سکتے ہیں، کیونکہ انکا ایک مذہبی فالوور ہے اور صوبے میں بھی جے یوآئی کی ہی آئیڈیالوجی کو فالو کرنے والوں کی اکثریت ہے، اس لئے عوامی سطح پر انہیں ہمدردی مل سکتی ہے اور اس بات پر لوگ جوق در جوق ان کی طرف آئیں گے، لیکن جے یو آئی فی الحال ڈیفینسِو رہ کر آگے بڑھنے کے موڈ میں ہے۔

یہی سوال جب افتخار فردوس سے کیا گیا تو انہوں نے اس کو صرف نظریات کی ہی جنگ کہا اور اسے کسی سیاسی عنصر یا آنے والے الیکشن کے ساتھ جوڑنے سے اتفاق نہیں کیا۔

Related Posts