میں پاکستان کے سیاسی نظام سے کیوں مایوس ہوا؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

لگ بھگ سال ہونے کو ہے جب ہم اپنے وطن کے سیاسی نظام سے مکمل مایوس ہوگئے اور خاموشی سے خود کو داخلی سیاست کے موضوع سے الگ کر لیا۔ فیس بک پر طویل سیاسی پوسٹیں بھی روک دیں اور ٹوئٹر اکاؤنٹ کو صرف اپنا ہفتہ واری کالم شیئر کرنے کی حد تک رکھ لیا۔ قارئین کی جانب سے تقاضا بہت بڑھا تو ایک دو ماہ میں داخلی سیاست پر واجبی سا کالم لکھ کر خانہ پری کرلی۔

یہاں تک کہ جب مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف ملک لوٹے تو اس واپسی کو بھی ہم نے موضوع نہیں بنایا، جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا تو یہ اعلان بھی ہمارا موضوع نہ بنا اور پوری انتخابی مہم کے دوران بھی اس موضوع سے لاتعلق رہے۔ 8 فروری کو بھی ہم نے دن بھر اس موضوع پر کوئی سنجیدہ نوعیت کی پوسٹ یا ٹویٹ نہ کی۔ پچھلے ایک سال کے دوران ہمارے مستقل موضوعات عالمی سیاست، سماجی و علمی ایشوز اور مزاح ہی رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ قومی سیاست کے حوالے سے ہماری ساری امیدیں دم کیوں توڑ گئیں؟

ہم سب جانتے ہیں کہ ایک بدترین قسم کا جبر کرکے ملک کے سیاسی نظام پر عمران خان کو مسلط کیا گیا۔ 2018ء کے انتخابات اور اس کے نتائج ہم سب جانتے ہیں۔ چلئے اسٹیبلشمنٹ نے مستقل سیاسی جماعتوں کی جگہ ایک غیر سیاسی مہرہ مسلط کردیا۔ اس کا توڑ یہ تھا کہ سیاسی جماعتیں جمہوری عمل کے ذریعے اس ہائبرڈ رجیم کو باہر کرتیں اور ملک کو واپس جمہوری ٹریک پر لاتیں۔ یہ جماعتیں ساڑھے تین سال میں اس میں کامیاب بھی ہوگئیں، مگر پہاڑ جیسی غلطی یہ کر ڈالی کہ نئے انتخابات کی طرف جانے کی بجائے 14 پندرہ ماہ کی بچی کھچی مدت کے لئے اقتدار سنبھال لیا۔

سیاسی جماعتوں کے اس فیصلے پر ہم چونکے ضرور تھے مگر جب اقتدار سنبھالنے والوں کی جانب سے فورا یہ موقف سامنے آیا کہ وہ اس ڈیڑھ سال میں تباہ حال معیشت کو قدرے بہتر ٹریک پر ڈال کر انتخابات کی جانب جانا چاہتے ہیں تو ہمیں بات معقول لگی اور ہم نے بھی اس کی تائید کی، لیکن دو تین ماہ میں ہی اندازہ ہوگیا کہ پی ڈی ایم کی یہ حکومت ایک خوفزدہ حکومت ہے اور کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ وہ حکومت جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے خوف کا شکار تھی۔

شہباز حکومت کے کل پرزے صحافیوں کو آف دی ریکارڈ یہ باور کرایا کرتے تھے کہ نومبر 2022ء میں جنرل باجوہ سے جان چھوٹتے ہی وہ جادو کی چھڑی نکال کر ملکی مسائل کو ایک دم سے حل کرلیں گے، مگر حد یہ ہوئی کہ جنرل باجوہ کے رخصت ہونے کے بعد پی ڈی ایم حکومت ایک نئے خوف کا شکار ہوگئی۔ جسٹس بندیال اور ان کے ہمنواؤں کا خوف۔ یوں انتظار شروع ہوگیا بندیال کی رخصتی کا اور جب بندیال رخصت ہوئے تو خود پی ڈی ایم حکومت کی رخصتی کا وقت سر پر آچکا تھا۔ یوں عمران حکومت نے جو مسائل چھوڑے تھے وہ حل ہونا تو دور کی بات، ان کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ڈالر اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید غیر معمولی اضافہ ہوگیا، جس سے عام شہری کا جینا مزید حرام ہوگیا اور چونکہ اس کارکردگی کے ساتھ الیکشن میں جانا خطرناک تھا سو انتخابات میں تاخیر کا حربہ اختیار کیا گیا۔

اسی دوران ایک خوف اور بھی چلتا رہا۔ حکومت سے برطرفی کے بعد سے عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی قیادت کے خلاف بہت ہی ناروا زبان استعمال کر رہے تھے اور کسی کے بھی کان پر جوں نہ رینگ رہی تھی۔ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہا، عاقبت نااندیش شہباز حکومت تو شاید اس صورتحال کا لطف لیتی رہی کہ اسٹیبلشمنٹ کو گالی پڑ رہی ہے تو پڑتی رہے، مگر اسٹیبلشمنٹ کی نئی قیادت بھی جیسے کسی خوف کا شکار تھی۔ غیر مصدقہ ذرائع سے یہ بات بھی وقفے وقفے سے سامنے آتی رہی کہ جنرل باجوہ کی باقیات کا خوف سوار ہے۔ یہاں تک کہ 9 مئی ہوگیا۔ یوں نہ چاہتے ہوئے بھی ردعمل دینا پڑا مگر جو اس کے بعد ہوا وہ تو نہایت مایوس کن تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ ایک سنگین واقعہ تھا۔ سیاست میں مداخلت کے بغیر اس کا اسپیڈی ٹرائل ہوتا تو قوم کی ہمدردی اداروں کے ساتھ ہوتی، مگر 9 مئی کے مجرموں کے خلاف کسی ٹرائل کی بجائے پی ٹی آئی کو بطور جماعت ٹارگٹ کر لیا گیا جو سیاست میں مداخلت تھی اور ساری توجہ اسی پر مرکوز کردی گئی۔

یوں رفتہ رفتہ ہمدردی کا رخ بدلنا شروع ہوگیا۔ حد یہ ہوئی کہ ملک کی سیاسی جماعتیں اس صورتحال میں خاموش تماشائی بنی رہیں۔ انہیں احساس ہی نہ تھا کہ جتنا وقت گزرتا چلا جائے گا اتنا ہی انہیں نقصان ہوگا۔ اس صورتحال میں جنہیں سب سے زیادہ سنجیدگی اور بے چینی دکھانی چاہئے تھی وہ عام شہری تھے، جن کا جینا حرام ہوچکا تھا، مگر ان عام شہریوں کو بھی کوئی پروا نہ تھی اور یہی وہ نکتہ تھا جہاں ہم مکمل طور پر مایوس ہوکر قومی سیاست سے ہی لاتعلق ہوگئے۔

ہم تین جوان اور برسر روزگار بیٹوں کے والد ہیں۔ ہم نے ان تینوں کو بلا کر کہا جب یہ ملک بنا تو تمہارے دادا کی عمر صرف 12 برس تھی۔ وہ بلوغت کی دہلیز پر کھڑے تھے، جلد ہی اس تاریخ ساز واقعے پر انہوں نے کچھ حسین خواب دیکھے ہوں گے۔ وہ خواب جو ملک و قوم کے مستقبل سے جڑے تھے۔ پھر 1969ء میں ہم نے بھی یہاں جنم لے لیا۔ شعور کی عمر کو پہنچے تو ہم نے بھی کچھ حسین خواب دیکھ لئے۔ آج تمہارے دادا کو دنیا سے رخصت ہوئے بیس برس ہوچکے۔ وہ قیام پاکستان کے بعد اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنے کے لئے ساٹھ سال جئے اور ہم بھی اب 55 برس کے ہوچکے۔ تعبیر گئی بھاڑ میں۔ ہم سے تو ہمارے خواب ہی چھین لئے گئے۔ آج سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا تم تینوں کے خوابوں کا بھی وہی حشر ہوگا جو تمہارے باپ اور دادا کے خوابوں کا ہوا؟ ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس ملک میں تو تمہارے خواب پورے نہیں ہوسکتے۔ یہ بنیادی طور پر جرنیلوں اور ان کے مہروں کا ملک ہے۔ وہ مہرے جو سیاستدانوں، ججز اور بیروکریٹس میں وافر موجود ہیں۔ ہم نے تم تینوں سے ہمیشہ یہ کہا کہ کبھی بھی روزگار یا کسی اور وجہ سے ملک نہ چھوڑنا۔ آج ہم ہی تم تینوں سے کہہ رہے ہیں کہ اب ہماری طرف سے تم تینوں پر یہ پابندی نہیں ہے۔ فیصلہ اپنی مرضی سے کرنا مگر ہم تمہیں بتا رہے ہیں کہ ہم اب مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں۔ اس ملک میں مزے بس سیاستدانوں، جرنیلوں، ججز اور بیوروکریٹس کی اولاد کے ہیں۔ تمہارا باپ چونکہ ان کٹیگریز سے نہیں ہے لھذا تمہارا مستقبل یہاں غیر محفوظ ہے اور یہ تاریک بھی ہوسکتا ہے۔ سو ہماری طرف سے اجازت ہے کہ اگر بیرون ملک منتقل ہونا چاہو تو ہوسکتے ہو۔ ہم خود البتہ اب بھی یہیں رہیں گے۔ کیونکہ ہمارا پرائم ٹائم جرنیل برباد کرچکے اور ہم اب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے۔ اب اس عمر میں اچھے وقت کی تلاش کا حاصل خواری ہی ہوگا۔ سو ہم اپنا بچا کھچا وقت یہیں پورا کریں گے۔

ہم نے ساری زندگی کتابیں ہی پڑھی ہیں اور ان کے نتیجے میں ملنے والا شعور ہی ہمیں مایوسی کی اس اسٹیج تک لایا ہے۔ ہم نے برباد ہونے والی اقوام کی تاریخ پڑھ رکھی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جب قوم اور قیادت دونوں غیر سنجیدہ ہوکر اپنے مسائل کے حل سے ہی لاتعلق ہوجائیں تو بربادی کے لمحے کا انتظار شروع کر دینا چاہئے۔ یہ غیر سنجیدگی نہیں تھی تو کیا تھی کہ پی ڈی ایم کی حکومت صرف اس لئے بنی کہ نواز شریف نے سوچا پچیس سال سے وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنے والے بھائی شہباز شریف کو ڈیڑھ برس کی وزارت عظمی دے کر اس کا خواب پورا کر دیتے ہیں۔ آصف زرداری نے سوچا اچھا موقع ہے بلاول کو وزارت کا جھولا جھلا دیتے ہیں تاکہ اقتدار کے ایوانوں سے آفیشلی مانوس ہوجائے۔ مولانا فضل الرحمن نے سوچا سینیٹر طلحہ محمود اور اپنے برخوردار کو نواز کر “غیبی مدد” کا تھوڑا انتظام کر لیتے ہیں۔ بچہ وزارت کے مزے لے لے تو خوش ہوجائے گا۔ یہی پرویز الہی نے بھی اپنے برخوردار کے لئے سوچا اور مہنگائی میں پستے عوام کو پروا ہی نہ تھی کہ یہ کیا کھلواڑ ہو رہا ہے؟ ایسے میں جب الیکشن ہوا تو اس کے نتائج ہی یہ واضح کر رہے ہیں کہ اس قوم نے ووٹ اپنے مسائل کے حل کے لئے نہیں بلکہ سیاستدانوں کی مرادیں پوری کرنے کے لئے ڈالا ہے۔ کیا یہ حالیہ انتخابی نتیجہ کسی بھی اینگل سے ایسی قوم کا لگتا ہے جسے بدترین قسم کے معاشی بحران کا سامنا ہے؟

جب قوم اور قیادت دونوں ہی اس درجہ لاپروا ہوجائیں تو پھر ان کے لئے سیاسی کالم لکھنے سے بہتر ہے بندہ بھینس کے آگے بین بجا لیا کرے یا اس سسٹم پر ہی لعنت بھیج کر لاتعلق ہوجائے۔ ہم نے دوسرا آپشن چنا ہے!

Related Posts