کورونا وائرس کا عفریت 10 لاکھ سے زائد انسانوں کو متاثر کرنے اور64ہزار سے زیادہ جانیں نگلنے کے بعد بھی قابو میں آنے کو تیار نہیں ہے، دنیا بھر میں کورونا کے کیسز میں تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، اس وقت کورونا سے متاثرہ ممالک میں امریکا پہلے، اسپین دوسرے، اٹلی تیسرے، جرمنی چوتھے اور فرانس پانچوں نمبر پر ہے تاہم پاکستان میں فی الحا ل کورونا کے مصدقہ کیسز کی تعداد 2880 ہے جبکہ 45افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ میں کورونا وائرس کے حوالے سے ایک رپورٹ جمع کرائی ہے جس کے مطابق رواں ماہ 25 اپریل تک پاکستان میں کورونا کے کیسز کی تعداد 50 ہزار تک پہنچ سکتی ہے تاہم حکومتی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وفاق اور صوبے کورونا کی روک تھام کیلئے ملکر کام کررہے ہیں ۔
پورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 50ہزار میں سے 7 ہزار کیسز سنگین نوعیت ،ڈھائی ہزار کے قریب کیسز تشویشناک اور41ہزار معمولی نوعیت کے کیسزہوسکتے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کا کہنا ہے کہ کورونا کے خلاف جنگ طویل ہوگی، کورونا سے ترقی یافتہ ممالک جن کے ہیلتھ سسٹم بہترین ہیں وہ بھی پریشان ہیں اس لئے یہ وباء پاکستان کیلئے ایک بڑا اور مشکل چیلنج ہے۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے آگے ترقی یافتہ ممالک نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں تو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا کیا حال ہو گا، ان کا کہنا ہے کہ کورونا بڑا چیلنج ہے جب قوم اس چیلنج سے نکلے گی تو بڑی مختلف ہو گی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ چار ماہ گزرنے کے باوجود کورونا کی وباء کا سدبات کیا جاسکا ہے نہ اب تک کوئی ویکسین تیار کی جاسکی ہے، پوری دنیا میں لاک ڈائون ہے اور لوگ گھروں میں محصور ہیں، کئی ممالک نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر سخت اقدامات بھی اٹھائے ہیں جبکہ گزشتہ روز عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر نے ایکانتباہ جاری کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈائون ختم کرنے کے حوالے سے جلد بازی کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
، ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں لاک ڈاؤن کے باعث لوگوں کی آمد و رفت میں 70 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
پاکستان میں کورونا کی وجہ سے حالات ابھی تک تو کنٹرول میں ہیں تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے، کاروباری طبقہ ہر صورت کاروباری مراکز کھولنے کیلئے بضد ہے، مذہبی حلقے عبادتگاہوں میں اجتماعی نمازوں پر پابندی ماننے میں شش وپنج کا شکار ہیں۔
حکومت صنعتی رواں کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہی ہے لیکن کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے عالمی ادارہ صحت کے انتباہ اور سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کو مد نظر رکھا جائے کیونکہ مالی نقصان کا ازالہ تو ہوسکتا ہے لیکن انسانی جانوں کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔