بابر یا شاہین پی ایس ایل کی ٹرافی کون اٹھائے گا ؟؟؟

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان سپر لیگ کی تاریخ کا سب سے کانٹے کا مقابلہ آج ہونے جارہا ہے، کہتے ہیں 2020ء معمولی سال نہیں گزرا، اس سال پوری دنیا نے کورونا کی وباء کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کیا۔

چین سے اٹھنے والی وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کی معیشتیں زمین بوس ہوگئیں، ایسے ادارے جن پر پوری دنیا کو ناز تھا وہ آن کی آن دیوالیہ ہوگئے، لاکھوں افراد ہلاک ہوگئے جبکہ آج بھی پوری دنیا اس موذی وباء سے نبردآزما ہے ۔کراچی کنگز اور لاہور قلندرز کو بھی پی ایس ایل کے فائنل میں دیکھ کر یہ یقین ہوچلا ہے کہ 2020ء واقعی کوئی معمولی سال نہیں ہے۔

پاکستان سپر لیگ میں شامل یہ دوایسی ٹیمیں ہیں جن کو شائقین کرکٹ روایتی حریفوں کا درجہ دیتے ہیں اور ان کے باہمی مقابلوں میں عوام کا جوش و جذبہ دیدنی ہوتا ہے، اگر دونوں ٹیموں کا جائزہ لیا جائے تو کراچی کنگز شروع سے ہی پی ایس ایل فائیو میں اچھا کھیل پیش کرتی آرہی ہے جبکہ لاہور قلندرز نے اپنے گزشتہ 5 میچوں میں شاندار کھیل پیش کرکے فائنل میں جگہ بنائی۔جس طرح لاہور قلندرز کی ٹیم پشاور زلمی اور ملتان سلطانز کو ہر کر فائنل میں پہنچی ہے ایسا لگتا نہیں کہ کراچی کنگز لاہور قلندرز کی فتوحات کے سامنے بندھ باندھ سکے گی۔

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کراچی کوئی کمزور حریف ہے کیونکہ جس طرح کراچی کنگز نے کوالیفائر راؤنڈ میں ایک وقت میں ملتان سلطانز کی ٹیم کو بآسانی کنٹرول کرلیا تھا لیکن کراچی کنگز کی ٹیم اس کنٹرول کو فتح میں تبدیل نہ کرسکی،جس کے بعد یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ کراچی کنگز کی ٹیم کو مستقل مزاجی کے حوالے سے کمزوریوں کا سامنا ہے۔

اگر دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ایک طرف بابر اعظم، شرجیل خان اور ایلکس ہیلزجبکہ لاہور قلندرز کو فخر زمان، تمیم اقبال اور محمد حفیظ کا ساتھ حاصل ہےاور اگر باؤلنگ کے شعبے پر نظر ڈالیں تو محمد عامر ، وقاص مقصود اور وین پارنیل موجود ہیں تو لاہور میں شاہین آفریدی ، حارث رؤف اور دلبر حسین موجود ہیں۔

ایک طرف بین ڈک اور ڈیوڈ ویزے بلند و بالا چھکوں کیلئے مشہور ہیں تو دوسری طرف کپتان عماد وسیم اور شیفن ریدرفورڈ بھی کچھ کم نہیں ہیں لیکن یہاں پر شائقین ایک مقابلہ دیکھنے کو بڑے بے چین ہیں جو کہ اس ایونٹ کے سب سے زیادہ 410رنز کرنیوالے بابر اعظم اور دوسری طرف حالیہ ایونٹ میں سب سے زیادہ 17شکار کرنیوالے شاہین آفریدی کے درمیان ہوگا، شائقین کو بڑی بے صبری سے اس بات کا انتظار ہے کہ بابر اعظم کا بلا رنز اگلے گایا شاہین آفریدی کی تیز گھومتی گیند ان کی وکٹیں اڑائے گی۔

یہاں بات کراچی کنگز اور لاہور قلندرز کی نہیں ہے بلکہ پوری قوم دو گروہوں میں بٹ چکی ہے، سوشل میڈیا پر تجزئیے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس قوم کو کرکٹ کی کس حد تک معلومات حاصل ہیں اور ہر میچ کے بعد ایک نیا دلچسپ تجزیہ دیکھنے کو ملتا ہے جس میں شائقین ہارنے والی ٹیم پر خوب تنقید اور جیتنے والے اپنے ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔دونوں ٹیموں کے کپتانوں کا موازنہ کیا جائے تو اس میں عماد وسیم کا پلڑا بھاری ہے کیونکہ لاہور کے قائد سہیل اختر گزشتہ دو میچوں  میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔

یہاں پر وکٹ کا بھی بڑا اہم کردار ہے، نیشنل اسٹیڈیم میں ایسی وکٹس پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں  جہاں گیند رک کر آرہا ہے اور باؤلنگ وکٹ ہو لیکن اس وکٹ پر تجربہ کار بلے بار رنز کررہے ہیں ، بابر اعظم اور محمد حفیظ نے اس وکٹ پر ہی کھیل کر اپنی ٹیموں کو فتح سے ہمکنار کروایا اور دوسری طرف باؤلرز نے بھی اس وکٹ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے میچ کا پانسہ پلٹا ہے، جس کی مثال ملتان سلطان اور لاہور قلندرز کے میچ کے اختتامی اوورز میں ملتی ہے جہاں ایک وقت میں ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ملتان بآسانی جیت جائیگا لیکن لاہور کے باؤلرز نے انکی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

دونوں کی ٹیمیں فائنل کیلئے بھرپور تیاریاں کررہی ہیں اور دونوں ٹیموں کا کوچنگ اسٹاف بھی کھلاڑیوں کی بھرپور معاونت کررہا ہے ، کراچی کا موسم بھی ان دنوں کافی خوشگوار ہے اور پورے ملک میں شائقین اس کانٹے دار مقابلے کو دیکھنے کیلئے بے تاب ہیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ آج ہونیوالے فائنل میں فتح کا سہرہ کس کے سپر پر بندھے گا۔  

Related Posts