وقت گزرتا ہے اور بہت سی چیزوں کو بڑی تیزی سے بدل ڈالتا ہے، جو اچھا ہوتا ہے وہ برا اور جو برا ہوتا ہے وہ مزید برا ہوتا چلا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی ہر گزرنے والی نسل دوسری سے کہتی نظر آتی ہے کہ ہمارے حالات بہت اچھے تھے۔
جی نہیں! آپ کے حالات اچھے نہیں تھے بلکہ ہمارے برے ہیں اور جو آگے آنے والے ہیں، انہیں مزید برے حالات کا سامنا کرنا ہوگا کہ یہی نوشتۂ دیوار ہوچکا کیونکہ انسان ازل سے ہی فطرت کے قوانین کے خلاف جنگ میں مصروف ہے جس کا نتیجہ صرف اور صرف تباہی ہے۔
دور کیوں جائیے! یہ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی ہی دیکھ لیجئے جس کا خمیازہ آج پاکستانیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہر دوسرا آدمی کہتا ہے کہ ایسا سیلاب تو نہ کبھی پہلے دیکھا، نہ سنا۔ تھوڑا سا پیچھے چلے جائیے،2010 کا سیلاب اور 2005 کا زلزلہ، کیا آپ نے پہلے کبھی ایسا سیلاب یا زلزلہ بھی دیکھا یا سنا تھا؟
مزید پیچھے جائیے۔ 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوتا ہے اور پھر مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھا جانے لگتا ہے۔ کیا مسلمان قوم نے کبھی اس قسم کے حالات بھی پہلے کبھی دیکھے یا سنے تھے؟ ماضی بہت دیکھ لیا، اب حال کی طرف واپس آجاتے ہیں۔
حال کی بات کیجئے تو روس نے یوکرین پر حملہ کردیا۔ کس کی جنگ کس کی قوم دربدر اور سزا کس کو بھگتنی پڑ رہی ہے؟ گندم کا بحران، پیٹرولیم کا بحران، کساد بازاری، اشیائے ضروریہ کی قلت اور مہنگائی کا طوفان۔ کیا کسی نے یہ سب کچھ بھی کبھی پہلے دیکھا یا سنا تھا؟
مرزا غالب کو اردو شاعری میں ایک بڑا اہم نام سمجھا جاتا ہے۔ ان کے ایک شعر پر آگے آنے والے شعراء نے اختلاف کیا اور اسی شعر کو نئی زبان دی جس سے پتہ چلتا ہے کہ پرانی نسل اور موجودہ نسل کی سوچ میں کتنا زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔
غالب نے کہا تھا:
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض؟
اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
آگے آنے والے شعراء قتیل شفائی اور احمد فراز نے اسی برہمن کے بخیے ادھیڑ ڈالے۔ ایک نے کہا کہ:
جس برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
دوسرے شاعر نے فرمایا:
نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے؟
غور کیجئے تو مرزا غالب کو بھی حالات سے بہتری کی کوئی امید نہیں تھی جو ان کے پہلے ہی مصرعے سے واضح ہے کہ دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض؟ گویا ہمیں تو کوئی امید نہیں ہے، پھر بھی ایک برہمن نے کہا تھا، تو چلیے دیکھ لیتے ہیں۔
نئے آنے والوں نے کہا کہ دیکھ بھی کیوں لیتے ہیں؟ آپ سے کس برہمن نے کہا تھا؟ ہمیں اس کا نام ہی بتا دیں۔ یعنی آگے آنے والوں کے نزدیک حالات اتنے خراب تھے کہ بہتری کی امید کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہوچکا تھا۔ کچھ ایسی ہی بات جون ایلیا نے بھی کی:
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
میں ذاتی طور پر شاعری کو امید چھیننے والی چیز نہیں سمجھتا بلکہ امید بانٹنے والے فن کے طور پر دیکھتا ہوں لیکن شاعر کا فرض ہوتا ہے کہ حقائق کی ترجمانی کا فریضہ بھی سرانجام دے چاہے وہ حقائق کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں اور موجودہ دور کے شعراء نے یہ کام بڑی خوبی سے کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حالات جو بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں، اور پھر بد ترین کی طرف بڑھ رہے ہیں، انہیں ٹھیک کون کرے گا؟ کیا ہمیں خود اس کے خلاف کھڑے ہونا ہے یا کسی مسیحا کا انتظار کرنا ہوگا؟ تو جواب خود ہمارے پاس موجود ہے۔
جب تک ہم من حیث القوم اپنے مسائل کے حل کیلئے خود کوئی تحریک چلا کر اس کی آبیاری نہیں کریں گے، اس کیلئے قربانیاں نہیں دیں گے اور متحد ہو کر فیصلے نہیں کریں گے، ہمارے حالات ہمارے قابو میں کبھی نہیں آسکتے۔بقول علامہ اقبال:
عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے