ایران میں مظاہروں کیخلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کی تحقیقات کی سربراہی کیلئے نامزد شاہین سردار علی کون ہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب
The Israel-U.S. nexus for State Terrorism
اسرائیل امریکا گٹھ جوڑ: ریاستی دہشت گردی کا عالمی ایجنڈا
zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایران میں مظاہروں کیخلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کی تحقیقات کی سربراہی کیلئے نامزد شاہین سردار علی کون ہیں؟
ایران میں مظاہروں کیخلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کی تحقیقات کی سربراہی کیلئے نامزد شاہین سردار علی کون ہیں؟

جینیوا: اقوام متحدہ نے تین خواتین کو ایران میں خواتین کی قیادت میں ہونے والے ان مظاہروں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کی تحقیقات کی سربراہی کے لیے نامزد کیا ہے جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کو 3 ماہ سے زیادہ عرصے سے ہلا کر کھا ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سربراہ فیڈریکو ولیگاس نے اعلان کیا کہ بنگلہ دیش سپریم کورٹ کی وکیل سارہ حسین، پاکستانی نژاد برطانوی قانون کی پروفیسر ، مصنفہ اور عورتوں کے حقوق کی سرگرم کارکن شاہین سردار علی اورارجنٹائن کی انسانی حقوق کی کارکن ویویانا کرسٹیوچ ، حقائق تلاش کرنے والے مشن کی غیر جانبدار رکن ہوں گی۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سربراہ کے مطابق بنگلہ دیش کی سارہ حسین جو ایک طویل عرصے سے انسانی حقوق کی کارکن ہیں، تحقیقات کی سربراہی کریں گی۔

ایران کی جانب سے ان تینوں کو ملک میں داخل ہونے اور اپنے مشن کو انجام دینے کی اجازت دینے کا زیادہ امکان نہیں ہے۔ تہران نے بین الاقوامی تحقیقات کی تشکیل کی شدید مخالفت کی ہے جس کے لیے گزشتہ ماہ حقوق کونسل کے 47 اراکین نے ووٹ دیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کی جانب سے منتخب کی گئیں یہ تینوں خواتین ایرانی حکام کے مظاہرین پر جبر اور انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دیں گی تاکہ ایران یا دیگر جگہوں پر حکام کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی کی جا سکے۔

پروفیسر شاہین سردار علی کون ہیں؟

پاکستانی نژاد برطانوی قانون کی پروفیسر شاہین سردار علی کا تعلق سوات سے ہے، انہوں نے اسلامی قانون، انسانی حقوق، خواتین اور بچوں کے حقوق کے میدان میں بڑے پیمانے پر لکھا ہے۔

شاہین سردار علی نیشنل اکیڈمی آف ہائر ایجوکیشن پاکستان کی ریکٹر، 25 سال تک پشاور کی لاء یونیورسٹی کی پروفیسر اور اسی یونیورسٹی میں ویمنز اسٹڈی سینٹر کی ڈائریکٹر رہی ہیں۔

وہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں صحت ، آبادی کی بہبود اور خواتین کی ترقی کی پہلی خاتون وزیر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔علاوہ ازیں شاہین علی خواتین کے قومی تحقیقاتی کمیشن کے ساتھ ساتھ پاکستان میں وزیر اعظم کی مشاورتی کمیٹی برائے خواتین میں بھی شامل رہی ہیں۔

خیال رہے کہ 1979کے اسلامی انقلاب کے بعد سے بڑے پیمانے پر مظاہرے ستمبر میں 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی حراست میں موت کے بعد پورے ملک میں پھیل چکے ہیں، جس کے نتیجے میں احتجاج کرنے والوں کی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ پرتشدد اور بعض اوقات جان لیوا جھڑپیں ہوئیں۔

ایرانی حکام نے کچھ مظاہرین کو پھانسی دی ہے اور ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ تہران کا کہنا ہے کہ یہ فسادات ہیں جس کی ایران کےدشمن اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قانونی طریقہ کار میں تیزی لائی گئی ہے اور تشدد کے ذریعے اعترافات کرائے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ ستمبر کے وسط سے اب تک لگ بھگ 14 ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جب کہ اوسلو میں قائم ایک این جی او، ایران ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کے دوران اب تک 469 مظاہرین مارے جا چکے ہیں۔

Related Posts