اس لڑکی کا نام فاطمہ جولہان ابو شنب ہے۔ یہ انگلش سمیت کئی زبانوں کی ماہر اور صدر اردوان کی خاص مترجم ہیں اور ان کی والدہ محترمہ مروہ قاوقجی اب بھی ملائیشیا میں ترکیا کی سفیر۔ یہ باحجاب لڑکی عالمی رہنمائوں کے ساتھ ملاقات سمیت بیرونی دوروں کے موقع پر ترک صدر کے ساتھ نظر آتی ہے۔
زندہ قوم کے لیڈر اردوان عالمی فورمز پر اپنی قومی زبان ترکی میں گفتگو کرتے ہیں، پھر یہ مترجم ان کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ان کی والدہ مروہ قاوقجی ہی وہ پہلی خاتون ہیں، جنہوں نے جدید ترکیا میں سرکاری عمارت کے اندر سرعام حجاب پہننے کی گویا بنیاد رکھی۔ ان کی داستان بڑی ایمان افروز ہے۔ یہ خاتون عزیمت اور صبر و ثبات کی پیکر، اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹنے والی صنف آہن اور پھر پورے معاشرے کی سوچ کا دھارا بدلنے والی اولو العزم شخصیت ہیں۔
مروہ 30 اکتوبر 1968ء کو انقرہ میں پیدا ہوئیں۔ ترکیہ میں تعلیم مکمل کرکے اعلیٰ ڈگری کے حصول کے لئے امریکا چلی گئیں اور جامعہ ٹیکساس میں کمپیوٹر انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔ ان کے والد بھی امریکی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مروہ بھی یونیورسٹی میں تدریس کرنے لگیں۔ مروہ کالج کے زمانے سے ہی استاذ نجم الدین اربکانؒ کی فکر سے متاثر ہوگئی تھیں۔ اب اربکان صاحب اپنی سیاسی جماعت ’’رفاہ پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھ چکے تھے، اس لئے مروہ نے وطن واپس آکر اس جماعت میں خدمات سر انجام دینے کا ارادہ کیا۔
مروہ کے خاندان کا اسلام سے رشتہ بہت گہرا تھا۔ ان کے والد کو بھی 1986ء میں دینی رجحان کے سبب ملک چھوڑ کر امریکا جانا پڑا تھا۔ بہرحال ترکیا آکر مروہ نے اربکان کی نئی جماعت فضیلت پارٹی کے ساتھ وابستہ ہوگئیں۔ رفاہ پارٹی پر پابندی عائد ہونے کے بعد اربکان نے اس نئی جماعت کی بنیاد ڈالی تھی۔ انہوں نے 1999ء کے انتخابات میں استنبول کے حلقے کا ٹکٹ ڈاکٹر مروہ کو دے دیا۔ مروہ چونکہ سائنسدان تھیں اور تقریر کی صلاحیت سے مالامال۔ ووٹرز کے دل جیتنے میں کامیاب ہوئیں اور حلقے میں بھاری اکثریت سے جیت گئیں۔ یہ ترکیا کی تاریخ میں رکن پارلیمان منتخب ہونے والی پہلی باحجاب خاتون تھیں۔ ان کے انتخاب سے سیکولر ازم کی بوسیدہ عمارت کے ستون ہل گئے اور ملک میں ایک بھونچال آگیا کہ باحجاب خاتون ترکیا کی رکنِ پارلیمان؟ جب حلف اٹھانے کا دن آیا تو مروہ قاوقجی کو پارلیمنٹ ہائوس میں داخل ہونے نہیں دیا گیا۔ ترک میڈیا کو بھی آگ لگ گئی۔
جب مروہ پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے لگیں تو انہیں روک دیا گیا، مگر وہ ہار ماننے والی کب تھیں؟ وہ پولیس کی رکاوٹوں کو پھلانگ کر پارلیمنٹ پہنچ گئیں۔ انہیں دیکھ کر سیکولر ارکان بالخصوص دائیں بازو کی ڈیموکریٹک پارٹی کا بلند ایجوت، خود وزیر اعظم لمرات عدیدہ پھٹ پڑے اور کہا کہ اس عورت کو ہمارے سامنے سے ہٹا دیا جائے۔ اسے دوبارہ یہاں آنے نہ دیا جائے۔ کسی نے کہا کہ اس کے لئے الگ کمرے کا انتظام کیا جائے، ہم اس کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ مروہ کی پارٹی کے ارکان نے ان سے کہا کہ سب سے معمر رکن پارلیمان سبتی اوغلو کے پاس جائو اور اس کے ہاتھ کا بوسہ لے کر پارلیمنٹ میں بیٹھنے کی اجازت مانگو۔ لیکن مروہ نے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے عوام نے منتخب کیا ہے، پارلیمنٹ میں آنا اور حلف اٹھانا دیگر ارکان کی طرح میرا بھی جمہوری و قانونی حق ہے۔ میں اس کے لئے کسی کی کیوں منت سماجت کروں؟ پھر یہ مطالبہ ہوا کہ چلو حجاب اتار دو، یہ سیکولر نظام کے خلاف ہے۔ مروہ نے کہا کہ کچھ بھی ہو جائے، یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ اس پر بلند ایجوت نے مائیک سنبھالا اور کہا کہ اس خاتون کے ہوتے ہوئے ہائوس کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔
اس طرح ترکیا میں ایک بڑا سیاسی بحران پیدا ہو گیا۔ وہ بھی صرف ایک خاتون کے حجاب کی وجہ سے!! جب بات نہیں بنی تو ترک صدر سلیمان ڈيميريل نے صدارتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا اور فیصلہ سنایا کہ مروہ کو حجاب کے ساتھ حلف اٹھانے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔
یہ چونکہ ملکی تاریخ کا پہلا اور انوکھا معاملہ تھا، اس لئے ملک بھر کے لوگ ٹی وی چینلز پر یہ مناظر دیکھ رہے تھے۔ بالخصوص مروہ کے حلقۂ انتخاب کے لوگ۔ بالآخر مروہ قاوقجی کو پارلیمنٹ سے نکال دیا گیا اور اجلاس کی کارروائی ملتوی ہوگئی۔ اگلے دن مروہ نے پریس کانفرنس کی اور سیکولر عناصر کو خوب سنایا کہ وہ میرا جمہوری و قانونی حق دینے کو تیار نہیں، یہ شخصی آزادی کے بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ایک ایسے ملک میں باحجاب خاتون کو حلف اٹھانے نہیں دیا جا رہا ہے، جس کی تین چوتھائی خواتین حجاب پہنتی ہیں، پھر انہوں نے آئندہ پارلیمان کے اجلاسوں میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ اپنی حمایت اور ووٹ دینے پر ترک عوام کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد سیکولر انتظامیہ اور میڈیا ہاتھ دھو کر اس نہتی خاتون کے پیچھے پڑ گئے۔ ہر روز ان کے خلاف خبریں، رپورٹس اور کالمز کا انبار لگ جاتا۔ اس عفت مآب خاتون کی کردار کشی روز کا معمول بن گیا۔ ان کے احباب اور خاندان کو بھی خوب رگیدا گیا۔ بالآخر مروہ کی پارٹی بھی ان کی حمایت سے دستبردار ہوگئی۔ دوست احباب نے ہاتھ کھینچ لیا اور رشتہ دار بھی منہ چھپانے لگے۔ یوں مروہ پورے نظام سے ٹکر لینے تن تنہا رہ گئی۔ اب سیکولر عناصر کی جانب سے ان پر حملے شروع ہوگئے۔ پولیس بھی پیچھے پڑ گئی۔ مروہ کو اپنی دو ننھی بیٹیوں کے ساتھ گھر چھوڑنا پڑا۔ پولیس کے خوف سے وہ ٹھکانہ بدلتی رہتیں۔
اس دوران مروہ کی جماعت نے ان کے اور حکومت کے مابین ’’صلح‘‘ کرانے کی کوشش کی، لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی۔ فضیلت پارٹی کے اسلام پسند ارکان کا بھی اصرار تھا کہ حجاب اتار کر پارلیمنٹ آنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی مصلحت کا تقاضا بھی تھا، مگر مروہ نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ تاہم ابھی تک ان کی اسمبلی رکنیت ختم نہیں کی گئی تھی۔ اس دوران معاملہ ترک سپریم کورٹ کے پاس چلا گیا۔ سیکولر ججز نے نہ صرف مروہ بلکہ اربکان کی پوری پارٹی پر پابندی لگا دی۔ 22 جون 2001ء کو عدالت نے فیصلہ دیا کہ مروہ سمیت فضیلت پارٹی کے 5 رہنما نااہل ہیں اور پارٹی تحلیل کر دی جائے۔
دلچسپ بات یہ کہ صدر سلیمان ڈیمیرل مروہ کے والد کا دوست تھا۔ وہ مروہ کی فیملی کو کئی بار صدارتی محل مدعو کر چکا تھا۔ اس کے باوجود صدر سلیمان نے مروہ کی ترک شہریت ختم کر دی۔ ڈاکٹر مروہ کہتی ہیں کہ 3 برس بعد کیوبا میں فضیلت پارٹی کے رکن ترہان چیلک سے میری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ صدر سلیمان نے ہمیں بتایا کہ اگر ہم نے مروہ کو حجاب کے ساتھ حلف اٹھانے کی اجازت دی تو ترک فوج حکومت کا تختہ الٹ دے گی، کیونکہ فوج سمجھتی ہے کہ یہ صرف ایک خاتون کے حجاب کا معاملہ نہیں، بلکہ سیکولر نظام پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ صدر سلیمان نے مروہ کی شہریت ختم کرنے کے لئے یہ بہانہ بنایا کہ ان کے پاس امریکی نیشنلٹی ہے۔ حالانکہ اُس وقت کئی ارکان پارلیمان دوہری شہریت کے حامل تھے اور اب بھی ہیں۔ شہریت ختم ہونے کے بعد مروہ کے لئے ترکیا کی زمین تنگ ہوگئی اور بالآخر انہیں ملک چھوڑ کر واپس امریکا جانا پڑا۔ (2015ء میں سلیمان ڈیمیریل کا انتقال ہوگیا)
ڈاکٹر مروہ قاوقجی کے ساتھ اس انسانیت سوز سلوک پر دنیا بھر میں شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے سخت احتجاج کیا۔ دنیا بھر کی اسلامی جماعتوں نے صدائے احتجاج بلند کی۔ مختلف ممالک میں خواتین نے مروہ سے اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرے کئے اور مروہ کو ’’ہمارے سروں کا تاج‘‘ قرار دیا گیا۔ مگر سیکولر عناصر چکنے گھڑے ثابت ہوئے، اس شرم پروف مخلوق پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اپنی شہری سے اس بدسلوکی پر امریکا بھی خاموش نہ رہ سکا۔
واشنگٹن نے انقرہ سے باقاعدہ شکایت کی اور اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے مروہ قاوقجی کو ملاقات کے لئے وہائٹ ہائوس بلایا جبکہ امریکی وزیر خارجہ کولن پائول نے بھی ان سے ملاقات کی۔ علاوہ ازیں کینیڈین وزیر اعظم سمیت کئی عالمی رہنمائوں نے مروہ سے ملاقات کرکے یکجہتی و ہمدردی کا اظہار کیا اور برطانوی ارکان پارلیمان کی جانب سے انہیں خط لکھا گیا۔ امریکا واپس پہنچ کر مروہ نے مزید تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور دنیا کی مشہور یونیورسٹی جامعہ ہاورڈ میں داخلہ لیا۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرکے وہ جامعہ جارج واشنگٹن میں پروفیسر لگ گئیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے قلمی جہاد بھی شروع کیا اور ترک اخبارات میں کالم لکھ کر رائے عامہ کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اردگان نے جب خاموش انقلاب برپا کیا۔ حجاب پر پابندی نرم ہوگئی تو مروہ واپس ترکیا آگئیں۔ ان کی شہریت بھی بحال کر دی گئی، بلکہ اردگان نے انہیں سفیر بنا کر ملائیشیا بھیج دیا۔ مروہ کی ایک بیٹی فاطمہ اردگان کی ذاتی مترجم ہیں، جبکہ دوسری باحجاب بیٹی روضہ قاوقجی اب اپنی عظیم ماں کے حلقے سے ترک پارلیمان کی رکن ہیں۔