صدر اردوان کی خاتون ترجمان کون ہیں؟ (پہلا حصہ)

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ترک صدر رجب طیب اردوان پاکستان کا دو روزہ دورہ مکمل کرکے واپس چلے گئے۔ غیر ملکی دوروں کے موقع پر ان کے ہمراہ ایک باحجاب نوجوان خاتون بھی دکھائی دیتی ہیں، پاکستان کے حالیہ دورے میں بھی ساتھ تھیں، انہیں عام طور پر صدر اردوان کی بیٹی یا کوئی عزیز سمجھا جاتا ہے، جو درست نہیں، پھر اس خاتون کا صدر اردوان سے کیا رشتہ ہے کہ وہ ہمیشہ ساتھ ہوتی ہیں؟ اس کے پیچھے ایک طویل تاریخ ہے، جو عزم و ہمت، پامردی و بہادری اور صبر و استقامت کی لازوال مثال ہے۔ آئیے اس پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں اسلام پسند صدر رجب طیب اردوان کے خلاف ہر طرح کا پروپیگنڈا کیا گیا، اس میں عورت کارڈ سرفہرست تھا کہ یہ ’’مولوی‘‘ حقوق نسواں کے غاصب ہیں، مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ تاریخ میں پہلی بار اردوان تیسری مدت کیلئے صدر منتخب ہوگئے اور ترک تاریخ میں پہلی بار ان کی جماعت “اے کے پارٹی” کی 50 خواتین نے الیکشن جیت لیا اور قومی اسمبلی کی ممبر بن گئیں۔ دلچسپ بات یہ کہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ باحجاب بھی ہیں۔ ان میں ترک تاریخ کی سب سے کم عمر رکن پارلیمان زہراء نور ایدمیر بھی ہیں۔ جن کی عمر صرف 25 سال ہے۔ جو دارالحکومت انقرہ سے جیت گئیں۔ زہراء پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں۔ اس کے ساتھ محترمہ رمیساء قدق بھی ہیں، جن کی عمر 27 برس ہے اور وہ استنبول سے جیت کر رکن پارلیمان بن گئیں۔ 600 نشستوں میں سے اردوان کی اے کے پارٹی 267 جیت گئی۔ ان میں سے 50 خواتین کے پاس ہیں۔ اس سے یہ امید بلکہ یقین ہوگیا ہے کہ اب ترکیا میں حجاب کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ حجاب کے حصول کیلئے ترک خواتین کی داستانِ استقامت نہایت ایمان افروز ہے۔
’’حق ِ اظہارِ حیا‘‘ کے حصول کیلئے ترکوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ترک تاریخ کے مقبول ترین وزیر اعظم عدنان میندریس اپنے وزرائے خارجہ وخزانہ کے ہمراہ پھانسی چڑھے۔ شہید عدنان میندریس مسلسل تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ 1954ء کے انتخابات میں ان کی پارٹی نے 541 کے ایوان میں 502 نشستیں جیتیں۔ میندریس پر جو فردِ جرم عائد ہوئی اس کے مطابق دینی مدارس کی بحالی، بہت سی بند مساجد کا اجرا، عربی میں اذان اور خاتون پولیس افسران کو سر ڈھانکنے کی اجازت، یہ سب امور ریاست کے خلاف گھنائونا جرم اور سیکولر ازم سے صریح انحراف قرار پائے۔ ’’استغاثہ‘‘ نے ثبوت کے طور پر پارلیمان میں قائد حزب اختلاف عصمت انونو اور وزیر اعظم کے درمیان مکالمہ پیش کیا۔ ملکی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے عدنان میندریس نے ایک معصوم سا سوال کیا کہ اگر خواتین بلا کسی جبر، اپنی مرضی و رضا سے سر ڈھانک کر گھر سے باہر آئیں تو اس سے سیکولر اقدار کیسے متاثر ہوں گی۔ اس پر حزب اختلاف کے کسی رکن نے کہا کہ حجاب ایک مذہبی علامت ہے، جس کی عوامی مقامات پر نمائش و اظہار قانون کے منافی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ’’پھر تو پارلیمان کو خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون سازی کرنی چاہئے۔‘‘ اس پر قائد حزب اختلاف نے پوچھا کہ کیا آپ پارلیمان کے ذریعے شریعت لانا چاہتے ہیں؟ تو میندریس نے کہا ’’یہی جمہوریت ہے اور اگر پارلیمان چاہے تو ملک میں شریعت نافذ ہو سکتی ہے۔‘‘ اس بات پر وزیر خارجہ فطین رستم نے پر امید انداز میں کہا کہ ان شاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا، جبکہ وزیر خزانہ حسن ارسلان بے اختیار اللہ اکبر کہہ اٹھے۔

غزہ کو ترکیہ کے ساتھ ملانے کا مطالبہ سامنے آگیا

یہ مقدمہ کتنا شفاف تھا، اس کا اندازہ چیف پراسیکیوٹر محمد فیاض کے بیان سے ہوتا ہے، جو انہوں نے پریس کو جاری کیا۔ محمد فیاض کے مطابق صدر جمال گرسل نے میندریس اور ان کے ساتھیوں کے پروانہ موت (ڈیتھ وارنٹ) پر دستخط کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ اس عبرتناک انجام سے بھی اسلام پسندوں نے کوئی ’’سبق‘‘ نہ سیکھا اور ’’حق اظہارِ حیا‘‘ کی جدوجہد جاری رہی۔ جون 1996ء میں پروفیسر نجم الدین اربکان المعروف ’’خواجہ صاحب‘‘ سیکولر جماعت راہِ مستقیم پارٹی (DYP)سے شراکتِ اقتدار کا معاہدہ کرکے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے سرکاری دفاتر میں حجاب پر پابندی ہٹانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ حجاب پر پابندی کے خاتمے کی، راہ مستقیم پارٹی کی سربراہ اور نائب وزیر اعظم تانسو چلر بھی حامی تھیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ پارلیمان میں کوئی قراراداد آتی، ترک فوج نے خواجہ صاحب کے دینی رجحان پر تشویش کا اظہار شروع کر دیا اور صرف ایک سال بعد نہ صرف ان کی حکومت برطرف کر دی گئی، بلکہ ان کی جماعت پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ پھانسی برداشت کرنے والوں کیلئے اقتدار سے معزولی اور جماعت پر پابندی کیا چیز تھی۔ رفاہ پارٹی پر پابندی لگتے ہی اسلام پسند پروفیسر صاحب کی قیادت میں فضیلت پارٹی (FP)کے نام سے منظم ہوگئے اور 1999ء کے انتخابات میں فضیلت پارٹی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ مزید یہ کہ فضیلت کے ٹکٹ پر استنبول سے مروہ صفا قاوفجی Merve Safa Kavakcı نامی خاتون رکن پارلیمان منتخب ہوگئیں۔ یہ جدید ترکی کی تاریخ میں پہلی خاتون تھی، جسے پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ اسے حلف اٹھانے کی اجازت نہیں ملی۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس نے حجاب پہن رکھا تھا۔ گویا کمال اتاترک کے سیکولر نظام سے بغاوت کا علم سرعام بلند کر رکھا تھا۔ یعنی اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں؟ بہت بڑا سیاسی ایشو بن گیا۔ سیکولر عناصر اس خاتون کے خلاف ڈٹ گئے۔ ڈاکٹر مروہ کو ایک ماہ کی مہلت دی گئی کہ وہ حجاب اتار کر آئیں اور حلف اٹھالیں۔ مروہ نے اسکارف اتارنے سے انکار کر دیا، جس پر پارلیمان سے ان کی رکنیت ختم کرنے کے ساتھ وزارت انصاف نے فضیلت پارٹی کو بھی کالعدم کر دیا۔ خاتون کو نہ صرف پارلیمنٹ سے نکالا گیا، بلکہ اس کی ترک شہریت بھی ختم کر دی گئی۔ یہ دربدر ہو کر ملک میں گھومتی اور پولیس اور خفیہ ایجنسیوں سے چھپتی پھرتی رہی، مگر کوئی ٹھکانہ نہ ملا تو بالآخر ملک ہی چھوڑ دیا اور واپس امریکہ چلی گئی۔
ڈاکٹر مروہ قرآن کی حافظہ ہونے کے ساتھ امریکہ کی مؤقر جامعہ ہارورڈ سے پی ایچ ڈی اور نامور کمپیوٹر سائنسدان ہیں۔ امریکا واپس آکر کر انہوں نے دنیا کی نامور یونیورسٹی، جامعہ Howard اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ امریکی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو میں ڈاکٹر مروہ نے بہت ہی مغموم لہجے میں کہا کہ ان کے حجاب سے امریکی ثقافت کو کوئی خطرہ نہیں اور وہ اسکارف کے ساتھ سارا کام کرتی ہیں، لیکن میرے ملک کے امن کو دو میٹر کے اس کپڑے سے سخت خطرہ لاحق ہے۔ ’’ہائے اس چارگرہ کپڑے کی قسمت غالب۔‘‘ خدا کا کرنا کہ فضیلت پارٹی کے کالعدم ہونے کے دو سال بعد رجب طیب اردگان کی قیادت میں اسلام پسند پھر برسر اقتدار آگئے۔ اردگان فٹ بال کے کھلاڑی اور اس وقت 48 سال کے جوانِ رعنا تھے۔ جس زمانے میں استنبول کے رئیس شہر (Mayor) تھے، انہیں ایک رزمیہ اسلامی نظم پڑھنے کے ’’الزام‘‘ میں سزا بھی ہو چکی تھی۔ دلچسپ بات کہ جس روز نظم پڑھنے کے جرم میں اردگان جیل بھیجے جا رہے تھے، اسی دن انہوں نے ’’نغمات یوں نہیں مرتے‘‘ کے عنوان سے اپنی آواز میں 4 معروف شعرا کے 8 انقلابی گیتوں پر مشتمل ایک پورا البم جاری کر دیا۔ صرف ایک ہفتے میں اس البم کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں، اردگان نے ساری کی ساری آمدنی ترک شہدا کے پسماندگان کیلئے وقف کر دی۔ اردگان کے بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے کے بعد سرکاری تقریبات میں خاتونِ اول اور وزراء کی بیگمات کی عدم شرکت پر اعتراض ہوا، لیکن وزیر اعظم کی اہلیہ امینہ اردگان نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں حجاب کے بغیر گھر سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔

آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز۔۔۔۔ وارم اپ میچ کے دوران افغان اور پاکستان اے ٹیم نے اکٹھے نماز جمعہ ادا کی

جولائی 2016ء میں مصر، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی مدد سے ترک افواج کے سیکولر عناصر نے اردگان حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ بمباری اور فائرنگ کے باوجود ترک عوام نے مسلح باغی فوجیوں کی مشکیں کس دیں اور یہ نام نہاد انقلاب سختی سے کچل دیا گیا۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ بغاوت کو عدلیہ اور سول افسران کے ایک حصے کی حمایت بھی حاصل تھی۔ غیر آئینی سرگرمیوں کے ذمہ داروں کو سزائیں دینے کے ساتھ ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا اور انتظامیہ سیکولر انتہا پسندوں سے بڑی حد تک پاک ہوگئی۔ اسی دوران حکومت نے بیرون ملک تعینات سفارتی عملے کیلئے حجاب کی پابندی ختم کر دی اور 2017ء میں مروہ صفا قاوفجی پورے وقار کے ساتھ ملائیشیا میں ترکیہ کی سفیر مقرر کر دی گئیں اور ان کی باحجاب بیٹی فاطمہ قاوفجی ترک صدر کی ترجمان ہیں۔ یہی وہ لڑکی ہے، جو میں ترک صدر رجب طیب اردگان کے ہمراہ ہوتی ہے۔ یہ اسی عظیم خاتون (مروہ صفاء قاوقجی) کی بیٹی ہے۔ اس کا نام فاطمہ جولہان ابوشنب ہے، جو بین الاقوامی تعلقات میں امریکا سے پی ایچ ڈی ہے۔ قاوقجی خاندان کا اصل تعلق فلسطین سے ہے۔ (جاری ہے)

Related Posts