بشار الاسد کی فوج کو شکست دے کر دنیا کو حیران کرنے والا فوجی کمانڈر ابو محمد الجولانی کون ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو عالمی میڈیا

شام کے شمالی علاقوں میں اچانک حملے کرکے بشار الاسد کی فوج کو پسپا کرنے والے عسکریت پسندوں نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے اور دنیا بھر کے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور ان کی قیادت کون کر رہا ہے؟

اب تک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق اچانک حملے کرکے بشار الاسد انتظامیہ اور فوجی کنٹرول سے حلب جیسا انتہائی اہم شہر اور دیگر چھوٹے بڑے شہر قبضے میں لینے والے عسکریت پسند شامی اپوزیشن اتحاد سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی سربراہی فوجی کمانڈر جنرل ابو محمد الجولانی کر رہے ہیں، آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں یہ جولانی کون ہیں؟

ابو محمد الجولانی نے حال ہی میں پہلی مرتبہ اپنے اصل نام احمد الشرع کے ساتھ بیان جاری کیا ہے۔ مختصر بیان جو “قائد احمد الشرع” کے نام سے جاری ہوا، میں کہا گیا ہے کہ ہم حماہ شہر کے عوام کو فتح کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ یہ بیان اس وقت جاری ہوا جب اپوزیشن کے عسکری اتحاد ہیئت تحریر الشام کی عسکری انتظامیہ نے حماہ شہر میں داخلے اور شامی حکومت کی افواج کے شہر سے انخلا کا اعلان کیا۔
ابو محمد الجولانی کون؟
شامی محقق حمزہ المصطفیٰ اور اسلامی تحریکات کے ماہر حسام جزماتی نے Middle East Eye پر شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں الجولانی کی زندگی کی تفصیلات پیش کی ہیں۔ جن کے مطابق جولانی کا اصل نام احمد حسین الشرع ہے، وہ 1982 میں سعودی دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے، جبکہ ان کے والد کا تعلق اسرائیل کے زیرقبضہ شامی علاقہ گولان کی پہاڑی سے ہے، جس کی وجہ سے وہ جولانی کہلاتے ہیں۔

گرینڈ امن جرگے کا مستقل قیام امن تک کرم میں ہی ٹھہرنے کا فیصلہ

جولانی کا خاندان بعد ازاں شام کے دارالحکومت دمشق منتقل ہوا، وہیں جولانی پلے بڑھے، انہوں نے 1960ء کی دہائی میں بغداد یونیورسٹی سے اقتصادیات میں تعلیم حاصل کی۔ وہ جمال عبدالناصر کے نظریات اور عرب قوم پرستی سے متاثر تھے۔ شام واپس آ کر وزارتِ پیٹرولیم میں کام کیا، لیکن سیاسی اختلافات کے باعث سعودی عرب چلے گئے۔ بعد ازاں دمشق واپس آ کر کاروبار کیا۔

2000 میں فلسطینی انتفاضہ سے متاثر ہوئے، جس نے ان کی سوچ اور نظریات پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی شخصیت میں ماضی کے مقابلے میں ایک باغیانہ پہلو ابھرنے لگا۔
الجولانی نے شام میں 2011 کے بعد کے حالات میں ایک اہم عسکری رہنما کے طور پر اپنی شناخت بنائی اور اپنی تنظیم ہیئت تحریر الشام کے ذریعے نمایاں کردار ادا کیا۔ ہیئت تحریر الشام کا سابقہ نام النصرہ فرنٹ تھا، جو القاعدہ سے وابستہ ایک گروہ تھا۔

الجولانی کی شخصیت اور تنظیم نے شام میں جنگی محاذ پر اور بین الاقوامی سطح پر خاصی توجہ حاصل کی۔ 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد جولانی نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ الزرقاوی کے قریبی ساتھی بنے اور عراق میں امریکی فوج کے خلاف لڑے۔

عراق میں گرفتار ہونے کے بعد انہیں امریکی فورسز نے بوکا جیل میں قید کیا، جہاں انہوں نے کئی قیدیوں کے ساتھ تعلقات بنائے۔2011 ء میں شام میں عوامی تحریک شروع ہونے کے بعد جولانی نے النصرہ فرنٹ قائم کیا، النصرہ فرنٹ نے شام میں حکومت مخالف جنگجوؤں کے ساتھ مل کر بشار الاسد کے خلاف جنگ لڑی اور اہم علاقوں پر قبضہ کیا۔

2016 ء میں جولانی نے القاعدہ سے علیحدگی کا اعلان کیا اور اپنی تنظیم کا نام ہیئت تحریر الشام رکھا۔ اس فیصلے کا مقصد شام میں دیگر گروہوں کے ساتھ تعاون بڑھانا اور بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنا تھا۔ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ القاعدہ کا ایجنڈا عالمی تھا، جبکہ جولانی کی سوچ صرف شام کو بشار الاسد کی آمریت سے آزاد کرانے تک محدود تھی۔

وہ اب بھی ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ہونے کے ساتھ 5 جماعتوں کی مشترکہ اپوزیشن فورسز کے سپریم کمانڈر بھی ہیں۔ وہ خود کو ایک شامی قومی رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو شام کی آزادی اور بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

Related Posts