بھارتی عدالت نے کئی سال سے قید بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر مولانا کلیم صدیقی اور ایک دوسرے نو مسلم مبلغ مولانا عمر گوتم کو اسلام کی تبلیغ کے جرم میں عمر قید کی سزا دے دی ہے۔
دونوں مسلم مبلغین کو عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد ہر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ یہ دونوں شخصیات کون ہیں، قارئین کی معلومات کیلئے ہم یہاں دونوں مبلغین کی زندگی کا ایک مختصر خاکہ پیش کر رہے ہیں۔
مولانا کلیم صدیقی کون ہیں؟
مولانا کلیم صدیقی بھارت کے نمایاں مسلم اسکالر اور دین اسلام کے مقبول ترین داعی اور مبلغ ہیں۔ وہ اپنے انتہائی متحمل مزاج، نرم خو، اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار کیلئے جانے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق ریاست یو پی کے ضلع مظفرنگر میں کھتولی علاقے کے پھلت گاؤں سے ہے۔ وہ گلوبل پیس سینٹر اور جامعہ شاہ ولی اللہ ٹرسٹ کے صدر ہیں۔
سال 1987 میں انھوں نے اس گاؤں میں جامعہ امام ولی اللہ اسلامیہ کے نام سے ادارہ بنایا جسے وہ خود چلاتے ہیں۔ وہ ہندوستان کے عظیم اسلامی مفکر فلسفی اور اسکالر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں مولانا کے زیر نگرانی کئی مدارس چلتے ہیں۔
مولانا کلیم صدیقی کی ابتدائی تعلیم پھلت گاؤں کے ایک مدرسے میں ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے پکٹ انٹر کالج کھتولی سے سائنس اسٹریم میں انٹرمیڈیٹ کیا۔ میرٹھ کالج، میرٹھ سے بی ایس سی پاس کیا۔ مولانا کلیم صدیقی کا شمار خطے کے بڑے علمائے کرام میں ہوتا ہے۔
گزشتہ 15 سالوں سے مولانا کلیم صدیقی کا خاندان شاہین باغ دہلی میں مقیم ہے۔ ان کا بڑا بیٹا احمد صدیقی گاؤں میں ہی دودھ کی ڈیری چلاتا ہے، جبکہ چھوٹا بیٹا اسجد صدیقی دہلی میں رہتا ہے۔
اترپردیش اے ٹی ایس نے الزام لگایا ہے کہ مولانا کلیم صدیقی کئی مدارس کو فنڈز دیتے ہے جس کے لیے بیرون ملک سے انہیں حوالہ کے ذریعے بھاری رقم بھیجی جاتی ہے۔
مولانا کو لے کر یہ بات بھی موضوع بحث رہی کہ بالی ووڈ کی سابق اداکارہ ثنا خان کا نکاح بھی مولانا نے پڑھایا تھا۔ غور طلب ہے کہ ثنا خان نے اپنا فلمی کیرئیر چھوڑ کر ایک عالم دین سے شادی کرنے کے بعد اسلامی ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا جو کافی بحث کا موضوع رہا ہے۔
عمر گوتم کون ہیں؟
اتر پردیش کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے اسلامی اسکالر عمر گوتم کو ان کے معاون مفتی جہانگیر کے ساتھ گرفتار کیا اور الزام لگایا کہ انہوں نے 1000 لوگوں کو زبردستی اسلام قبول کرایا ہے۔ اے ٹی ایس نے عمر گوتم پر جبری تبدیلی مذہب کا بھی الزام لگایا اور کہا کہ ان کے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے تعلقات ہیں۔
تاہم سرکردہ مسلم رہنماؤں، تنظیموں اور عمر گوتم کے اہل خانہ نے ان کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تبدیلی مذہب ایک آئینی حق ہے اور عمر گوتم کے خلاف جبری تبدیلی اور آئی ایس کے ساتھ روابط کے الزامات من گھڑت ہیں۔ عمر گوتم خود ایک نو مسلم ہیں، جنہوں نے نینی تال میں اپنے بی ایس سی کے آخری سال کے دوران اسلام قبول کیا۔
عمر گوتم کا ہندومت سے اسلام کا سفر
سال 1985 کا واقعہ ہے جب وہ ایک حادثے کا شکار ہو گئے۔ پھر ان کے ایک پڑوسی ناصر خان نے اس مشکل وقت میں عمر گوتم کی مدد کی۔ حادثے کے بعد عمر گوتم کالج، اسپتال اور میس جانے کے قابل نہیں رہے۔ ناصر خان نے انہیں کالج اور ہسپتال جانے میں مدد کی۔ وہ عمر گوتم کے لیے میس سے کھانا بھی لایا کرتا تھے۔ خان کے اس حسن سلوک نے عمر گوتم کو کافی متاثر کیا۔
اس حوالے سے عمر گوتم کہتے ہیں کہ انہوں نے (ناصر خان) ایک سال تک پیار اور دیکھ بھال کے ساتھ میری خدمت کی۔ انہوں نے اسلام کے بارے میں بھی بات کی اور اس پر اٹھائے گئے میرے سوالات کے جوابات دیئے۔ تاہم انہوں نے کبھی کسی بات پر بحث نہیں کی۔ اور نہ ہی انہوں نے مجھے اسلام قبول کرنے کی پیشکش کا اظہار کیا۔ ایک سال کے بعد میں نے خود انہیں بتایا کہ میں مسلمان بننا چاہتا ہوں۔
عمر گوتم شیام پرتاپ سنگھ کے نام سے 1964 میں اتر پردیش کے فتح پور ضلع میں ایک راجپوت خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ کے بھتیجے ہیں۔ جب وہ 15 سال کے تھے تو انہوں نے بت پرستی کے بارے میں شک کرنا شروع کر دیا کیونکہ ان کے مذہبی صحیفے کئی مقامات پر خود بت پرستی کے خلاف بات کرتے ہیں۔ ہندو مذہب میں مورتی پوجا اور تناسخ کے تصور کے بارے میں کئی سوالات تھے جو انہیں پریشان کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات کے ساتھ بہت سے ہندو اسکالرز سے رابطہ کیا لیکن ان کی پریشانی اور سوالات کا کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
پرتاپ گڑھ یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے، انہوں نے تقریباً تمام ہندو مذہبی کتابیں اور ہندو سماجی مصلحین کی سوانح عمری پڑھی۔ لیکن یہ انہیں مطمئن نہ کر سکا۔ ایک بار انہوں نے تو یہاں تک کہ امن کی تلاش میں پہاڑوں میں ایک متولی کی حیثیت سے رہنے کا فیصلہ کیا۔
تاہم 1985 میں وہ ناصر خان کے رویے سے متاثر ہوئے اور اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا جس سے ان کے خاندان کے لوگ نفرت کرنے لگے۔ انہوں نے قرآن کا ہندی ترجمہ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی زندگی کا مطالعہ کیا۔ ایک سال بعد انہوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔
لیکن ان کی تبدیلی ان کے خاندان کے افراد سمیت بہت سے لوگوں کو اچھی نہیں لگی۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے کالج میں اعلان کیا کہ آج سے میں شیام پرتاپ سنگھ نہیں بلکہ محمد عمر ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے میرے فیصلے کی مخالفت کی۔ مجھ پر حملہ کیا گیا۔ کچھ لوگوں نے مجھے مارنے کی کوشش کی۔ لیکن میں اللہ کے فضل سے ثابت قدم رہا ہوں۔