پاکستان میں مختلف شعبوں میں کام کرنے والی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں ملکی معیشت پر اعتماد کھو چکی ہیں۔پچھلے چھ مہینوں میں، بزنس کانفیڈنس سکور (BCS) مجموعی طور پر 21 فیصد پوائنٹس کی کمی سے مائنس 4 فیصد رہ گیا ہے۔ ستمبر-نومبر 2022 کے دوران کیے گئے ‘بزنس کانفیڈنس انڈیکس سروے ویو 22’ میں، اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (OICCI) نے کہا کہ کاروباری اعتماد میں کمی کی تین اہم وجوہات سیاسی عدم استحکام، روپے کی قدر میں کمی اور ایندھن کی بلند قیمتیں ہیں۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پیکج نہ ملنے کے باعث انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی شدید کمی ہے، ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے جو ملک کی موجودہ صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے سامنے ہو، معیشت میں سست روی، سامان کی قلت، اور ملازمتوں میں کمی کے باعث اسٹیٹ بینک زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو بچانے کے لیے درآمدات پر پابندیاں لگا رہا ہے، اسٹیٹ بینک کے اس وقت کے ذخائر 6.7 بلین ڈالر ہیں، جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو درآمدات میں مزید کمی کرنا پڑے گی۔
وزیر خزانہ جو اپنی خیالی دنیا میں رہ رہے ہیں آئی ایم ایف کو دھمکیاں دے رہے ہیں، اقتصادی اور مالیاتی ہنگامی حالات ان دنوں کثرت سے زیر بحث آرہے ہیں،گزشتہ چھ ماہ سے حالات کو قابو میں لانے کے لیے بہت سے اقدامات کی وکالت کی جا رہی ہے۔آئی ایم ایف تک پہنچنا زیادہ ضروری نہیں ہو سکتا۔ تاہم وزیر خزانہ کے اس انداز نے مالیاتی منڈیوں کو چونکا دیا ہے۔آج، آئی ایم ایف پروگرام میں واپسی پہلا قدم ہے جو حکومت کو اٹھانا چاہیے۔ اگر اسحاق ڈار دوست ممالک سے تین بلین ڈالر کے اضافی فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تب بھی کوئی چیز کارگر ثابت نہیں ہوگی۔کیونکہ یہ کافی نہیں ہوگا۔
ہمیں کفایت شعاری کی مشق کرنی چاہیے اور اپنی کمر کسنی چاہیے۔ نام نہاد مالیاتی جادوگر اسحاق ڈار آئی ایم ایف کو دھونس دے رہے ہیں، گویا آئی ایم ایف کی غیر موجودگی میں ان کے پاس ٹھوس بیک اپ پلان ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد بالخصوص مسلم لیگ ن صورتحال کی سنگینی کو نہیں سمجھ رہی۔ ملک کے معاشی مسائل بہت زیادہ پیچیدہ ہیں اور محض کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے سے یہ حل نہیں ہو گا۔ ملک کو چلانے کے لیے قرضوں کی تنظیم نو کی ضرورت ہے۔
ن لیگ سمجھتی ہے کہ اسحاق ڈار کسی جادو کی چھڑی سے چھ ماہ میں معیشت کو ٹھیک کر لیں گے اور پارٹی الیکشن میں جانے کے لئے تیار ہوجائے گی، لیکن ہر غیرجانبدار آنکھ دیکھ سکتی ہے کہ ملک تباہی کی جانب گامزن ہے، ہر گزرتے ہفتے کے ساتھ بے چینی بڑھ رہی ہے۔ سیاسی اشرافیہ کو بیدار ہونا چاہیے اور اپنے سیاسی نظریئے سے ہٹ کر سوچنا شروع کر دینا چاہیے۔ آئی ایم ایف کو واپس لانے کے لیے مالیاتی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے، مالی کفایت شعاری اور اخراجات کو محدود کرنا ضروری ہے۔ سیاسی طور پر کچھ بھی آسان نہیں ہے لیکن حکومت کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔