لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کی تاریخ دینے کا کہہ دیا، یعنی وہی مطالبہ دہرایا جو گزشتہ کچھ ماہ سے چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے رہنما، اراکینِ اسمبلی اور سینیٹرز مختلف میڈیا پلیٹ فارمز پر بیٹھ کر کرتے نظر آرہے تھے۔
جب کوئی درخواست عدالت میں زیرِ غور آتی ہے تو عدالت اس کا فیصلہ ضرور سنایا کرتی ہے اور عام انتخابات کیلئے تاریخ دینے سے متعلق فیصلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی سمجھا جاسکتا ہے۔
عدالت کا کام ملکی آئین اور دستور کی تشریح کرنا ہوتا ہے اور ملکی آئین اس حوالے سے واضح ہے کہ پنجاب کی جو صورتحال ہے، اس میں 90 دن کے اندر اندر الیکشن کرانا الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آئین کے تحت ملک کے کسی بھی صوبے میں نگراں حکومت 3 ماہ سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتی۔ ملک کے جتنے بھی ادارے اور مشینری ہے جس کا تعلق عام انتخابات سے ہے، سب نے کہہ دیا کہ ہمارے پاس افرادی قوت اور وسائل ہی نہیں کہ الیکشن کروا سکیں۔
تمام تر اشارات کو سامنے رکھنے پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عدالت نے جو جو ریمارکس دئیے، اور جو فیصلہ دیا، اس فیصلے پر عملدرآمد کیلئے عدالت کا اپنا ایک مکینزم ہے۔ الیکشن کمیشن جو انتخابات منعقد کراتا ہے، حکومت کے تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے ہی منعقد کراتا ہے، لیکن اگر وہ ذرائع اور وسائل ہی ختم کرکے الیکشن کمیشن کو اپاہج کردیا جائے تو الیکشن منعقد کرانا تو دور کی بات، الیکشن کمیشن کو اپنے انتظامات چلانا بھی مشکل ہوجائے گا۔
اگر عدالت آئین کی یہ تشریح کرتی کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کو ہی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا ہوگا، تو گورنر کو ہی الیکشن کی تاریخ دینی پڑ جائے گی۔ تاہم عدالت نے اس تنازعے کو تو ختم ہی کردیا کہ گورنر پنجاب کو الیکشن کی تاریخ دینی چاہئے یا نہیں دینی چاہئے بلکہ اس نے الیکشن کمیشن کو ہی یہ کام سونپ دیا کہ وہ الیکشن منعقد کروائے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ متعلقہ ادارے مثلاً پولیس، وزارتِ خزانہ، رینجرز یا دیگر اداروں کا فرمانا ہے کہ ان حالات میں جب دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور ہماری تعیناتیاں دیگر مقامات پر کی گئی ہیں، تو ہمارے پاس اتنی فورس ہی نہیں کہ سکیورٹی فراہم کرسکیں۔
سکیورٹی وجوہات کے باعث اگر الیکشن کمیشن انتخابات منعقد کروانے کی تاریخ دے بھی دے تو دیگر اسٹیک ہولڈرز کو عدالت سے رجوع کرنا پڑےگا۔ پھر عدالت تمام متعلقہ اتھارٹیز کو نوٹس کرکے طلب کر لے گی اور پھر عدالت پوچھے گی کہ اگر آپ کے پاس ذرائع نہیں ہیں تو کیوں نہیں؟ اور ذرائع مہیا کرنے والے ادارے یا وزارتوں کو تاکید بھی کرے گی کہ وہ تمام ضروریات پوری کرسکیں؟ کیونکہ پہلے بھی تو الیکشن ہوتے رہے ہیں۔ پوری دنیا میں جنگوں اور مشکلات میں بھی الیکشن ہوجاتے ہیں اور ہنگامی حالات میں بھی انتخابات منعقد کیے جاتے ہیں، تو پاکستان میں کیوں نہیں ہوسکتے؟ ان معاملات کو اگر طول دیا جائے اور الیکشن اگر وقت پر نہ کیے جائیں تو راقم الحروف کا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس سے کوئی اچھی تاریخ رقم نہیں ہوگی اور ملک میں افراتفری کا سلسلہ جاری ہی رہے گا۔
موجودہ صورتحال میں حکمراں سیاسی جماعت ن لیگ کیلئے اپنی ساکھ بحال رکھنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ ایک تو معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور بد ترین مہنگائی کے ساتھ ساتھ پارٹی میں اندرونی طور پر دراڑیں پڑ رہی ہیں، اب مریم نواز کی انتظامی عہدے پر آمد اور سینئر ن لیگی رہنماؤں کی جانب سے اختلافات سامنے آنے کے بعد اس جماعت میں مزید دراڑیں بھی پڑنا شروع ہوگئی ہیں، جبکہ ملک میں موجود موروثی سیاست نے نوجوانانِ ملت کو موروثی سیاست کے پیدا کردہ سیاستدانوں کے علاوہ کوئی اور انتخاب کا آپشن چھوڑا ہی نہیں گیا۔
ملک بھر میں رائج سیاسی پارٹیوں میں خود جمہوریت نہیں ہے اور یہ سب لوگ جمہوری پارٹی کے رہنما ہونے کے دعویدار نظر آتے ہیں۔ جن پارٹیوں میں خود جمہوریت نہ ہو، وہ ملک کو جمہوری قدروں سے روشناس کیسے کرا سکتی ہیں؟ موروثی سیاست کے باعث گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست ہی بزنس بنی ہوئی ہے۔ اتنی بڑی پارٹیوں کے پاس سیاست ہی بزنس کا ذریعہ ہے۔ موجودہ اور اس سے پہلی حکومت نے بھی اپنے آپ کو ہی ریلیف دیا، عوام کو ان سے کوئی ریلیف نہیں ملا۔
موجودہ دور اور اس سے قبل بھی طاقتور لوگوں نے اپنے ریلیف کیلئے نیب قانون میں ترامیم کیں۔ اپنے آپ کو تو حکمرانوں نے ریلیف دے دیا، تاہم انہیں اس کی ایک سیاسی قیمت بھی چکانی پڑی۔ جب عمران خان حکومت میں تھے تو ان کی شہرت کا گراف گر رہا تھا، تاہم جب وہ حکومت سے نکلے تو پی ڈی ایم کی جماعتوں کی ناقص کارکردگی نے ان کی اہلیت کا سارا پول کھول دیا جس سے عوام میں عمران خان کی پذیرائی میں اضافہ ہونا قدرتی امر بن گیا۔ مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے، اس کی وجہ سے عمران خان کی پارٹی کو دوام مل گیا۔
حکومت ایک خاص قسم کے طبقے کو مسلسل فائدہ پہنچا رہی ہے۔ اگر نواز شریف ملک میں آئیں تو وہ کچھ خرابیوں کو سنبھالنے میں معاونت کار ہوسکتے ہیں ، تاہم ان کی آمد کا پلیٹ فارم بن نہیں رہا ہے۔
نہ کوئی پارٹی اپنا آڈٹ کرانے کو تیار ہے نہ ہی کوئی کرپشن چھوڑتا ہے۔ عمران خان کی جماعت میں بھی سنگل مین شو چلتا رہا، اور پارٹی کے کسی دیگر شخص کو بولنے کی جرأت کم ہی پیدا ہوئی۔ مریم نواز ایک مراعات یافتہ شخصیت ہیں جو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئیں، ان کے والد نواز شریف سابق وزیر اعظم رہے ہیں، وہ اس کا فائدہ اٹھاتی ہی رہیں گی ۔
تمام سیاسی پارٹیاں سوچتی ہیں کہ ملک میں قارون کا خزانہ ہے جسے وہ مسلسل لوٹتی کھسوٹتی رہیں گی اور معیشت کا پہیہ اسی طرح چلتا رہے گا، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ اس سے بہت بڑی تباہی آسکتی ہے۔ دراصل ہمارا بیرونی قرض اور اندرونی قرضہ جات کو اگر ڈالر میں تبدیل کیا جائے تو کل قرضے 267 ارب تک پہنچ جاتے ہیں اور ان کی ادائیگیوں اور سود کیلئے ہر سال تقریباً 25 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے جو پتہ نہیں کہاں سے آئیں گے جبکہ حکومت موجودہ معاشی بدحالی کے باوجود وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم عوام کو ریلیف دیں گے۔
وزیر خزانہ نے بڑی تضاد والی بات کی۔ ہمارے جو حالات ہیں، ان میں عوام کو ریلیف دینا تو درکنار، ٹیکس ریونیو تو یہ جمع نہیں کرسکتے، نعرے سب نے لگائے، گزشتہ اور موجودہ حکومت دونوں نے نعرے لگائے تو جو لوگ ٹیکس دے رہے ہیں، ان کو جتنا نچوڑ سکتے تھے، نچوڑ لیا ہے۔ پاکستان کے زرِ مبادلہ ذخائر 2 اعشاریہ 9 ارب ڈالرز سے بھی کم رہ گئے ہیں جو 15 روز کی درآمدات کیلئے بھی ناکافی ہیں۔ آئی ایم ایف بھی یہ کہہ کر چلا گیا کہ ہم اپنی انتظامیہ سے بات چیت کریں گے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے انتہائی سخت شرائط موجودہ حکومت کو لاگو کرنی پڑیں گی۔ اس وقت عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر آگئی ہے۔یہ جبر اور ظلم کا دور ہے، بقول شاعر:
زندگی جبر کے سانچوں میں ڈھلے گی کب تک
ان فضاؤں میں موت پلے گی کب تک
فاقہ کشی شروع ہوگئی ہے۔ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ کل 12 سے 15 جگہوں پر جلسے جلوس نکالے گئے ہیں اور ٹائر جلائے گئے۔ بہتری اسی میں ہے کہ حکومت معاشی اصلاحات تو نافذ کرے ، تاہم عوام کے ریلیف کیلئے بھی خاطر خواہ اقدامات اٹھانا وقت کی ضرورت بن چکا ہے اور اگر یہ سب نہیں کیاجاسکتا تو موجودہ حکومت اور الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تاریخ دے کر کسی ایسی حکومت کو آنے کا موقع دیں جس کے پاس عوام کے مسائل کا حل ہو۔