غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جنگ کو 45 روز ہوگئے ہیں۔ 7 اکتوبر سے لیکر 20 نومبر تک کے عرصہ میں اسرائیلی فوج نے غزہ پر خوفناک بمباری اور زمینی کارروائیاں کرکے 14 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے۔ ان شہدا میں 5600 بچے اور 3550 خواتین شامل ہیں۔ 31000 فلسطینی زخمی بھی ہو گئے ہیں۔ 6500 افراد لاپتہ ہیں۔ ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ سب بھی موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور ان کی لاشیں کھنڈر بنی عمارتوں کے ملبے کے نیچے دبے ہیں۔
غزہ پر 2007 سے حماس کا کنٹرول ہے، تاہم اس خوفناک جنگ کے خاتمے کے بعد کیا منظر نامہ ہوگا اس حوالے سے مختلف آرا سامنے آنے لگی ہیں۔
ماریہ بی نے اسرائیلی پراڈکٹس کا تاحیات بائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیا
کبھی میڈیا میں امریکہ کے بارے میں بات کی جاتی ہے کہ وہ ایک متبادل فلسطینی قیادت کی تلاش کر رہا ہے۔ کبھی سکیورٹی کا معاملہ سنبھالنے کے لیے بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کی بات کی جاتی ہے۔ کبھی غزہ کی پٹی پر مصری مینڈیٹ قائم کرنے کے حوالے سے اسرائیلی مطالبہ کی خبریں سامنے آ جاتی ہیں۔ ایک چوتھا آپشن یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں عرب افواج کو تعینات کردیا جائے۔
اگرچہ ان میں سے کوئی بھی آپشن ابھی تک باضابطہ طور پر پیش نہیں کیا گیا ہے لیکن فلسطینی ان سب منظر ناموں سے بہت زیادہ پریشانی اور خدشات میں چلے گئے ہیں۔ خاص طور پر فلسطینیوں کو بے گھر کرنے اور “گریٹر اسرائیل” کے منصوبے کو زمین پر مسلط کرنے کے امکان کے بارے میں مصری اور اردنی انتباہات کے تناظر میں فلسطینیوں کے خدشات مزید بڑھ جاتے ہیں۔
عرب عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس سلسلے میں ایک فلسطینی سیاسی عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ دراصل اسرائیل کے ساتھ تعاون کے کارڈز کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے ایک متبادل فلسطینی قیادت کو تلاش کیا جارہا ہے۔
فلسطینیوں کا جذبہ ایمانی امریکیوں کو اسلام کی طرف کھینچنے لگا
عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی اور مزید بتایا کہ وہ فلسطین میں افغانستان کے تجربے کو دہرانا چاہتے ہیں۔ وہ فلسطینیوں میں سے ایک نئے کرزئی کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا اشارہ 2001 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کرکے حامد کرزئی کی حکومت لانے کی طرف تھا۔
فلسطینی عہدیدار کے مطابق یہ اشارے جنگ شروع ہونے کے پہلے دن سے ہی فلسطینی قیادت کے اندیشوں کو بڑھا رہے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی منصوبہ فلسطینی قیادت سمیت پورے فلسطین کے مسئلے کو نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ منصوبہ کسی مخصوص جغرافیائی علاقے یا مخصوص تنظیم سے متعلق نہیں ہے۔
نئے لیڈروں کی تلاش
فلسطینی عہدیدار نے مزید کہا کہ کچھ عرب ملکوں نے ہمیں نئے فلسطینی لیڈروں کے انتخاب کے لیے ہونے والی تحقیق اور امکانی کارروائیوں سے آگاہ کیا ہے۔ اس کا مقصد ایسے نئے لیڈروں کی تلاش ہے جو اسرائیلی منصوبے کے مطابق ہوں اور اسرائیلی منصوبے کی منظوری دیں اور پھر اس پر عمل درآمد بھی کریں۔ تاہم فلسطینی عہدیدار نے کہا کہ اسرائیل اپنے اس منصوبے میں کامیاب نہیں ہوگا۔
عہدیدار نے نشاندہی کی کہ امریکی وزیر خارجہ بلنکن اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز جنہوں نے قبل ازیں رام اللہ کا دورہ کیا تھا نے اس بات پر توجہ نہیں دی کہ میڈیا کے ذریعہ یہ بات منکشف ہوئی ہے کہ امریکہ متبادل قیادت کی تلاش میں ہے۔
ولیم برنز نے اس ماہ کے شروع میں رام اللہ (مغربی کنارے کا ایک شہر جہاں فلسطینی مقتدرہ کا ہیڈکوارٹر واقع ہے) کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں کیا بات چیت کی اس کے بارے میں ذریعہ نے بتایا کہ انہوں نے فلسطینی فنڈز کے معاملے میں مداخلت کی اور ان سکیورٹی تفصیلات پر بات چیت کی جس کے تحت اسرائیل سیکورٹی فنڈز میں کٹوتی کر رہا ہے۔
العربیہ کے مطابق فلسطینی عہدیدار نے مزید کہا کہ امریکی اسرائیلیوں کو فلسطینی فنڈز جاری کرنے کے لیے قائل نہیں کر سکے لیکن ہمیں یقین نہیں ہے کہ امریکہ جو اسرائیل کو اس رقم اور فوجی اور سیاسی قوت کے ساتھ مدد کرتا ہے اسے فنڈز واپس کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ یہ فنڈز فلسطینیوں کے لیے مختص کئے گئے ہیں اور یہ ہمارا حق ہے ہم پراحسان نہیں ہے۔
فلسطینی عہدیدار نے تصدیق کی کہ اگر امریکہ مسئلہ حل کرنا چاہتا تو اسے حل کر لیتا لیکن امریکہ فلسطینی کاز اور فلسطینی اتھارٹی کو تباہ کرنے کے اسرائیلی منصوبے میں پورا شریک ہے۔
غزہ کی مغربی کنارے سے علیحدگی
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن احمد مجدلانی نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کو مغربی کنارے سے مکمل طور پر الگ کرنے اور اس پٹی کو مکمل طور پر حماس سے چھین لینے کی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
احمد مجدلانی نے کہا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کی اگلی شکل بنانا چاہتا ہے خواہ فلسطینی اتھارٹی اس پٹی کا انتظام سنبھال لے۔ اسرائیل کسی بھی حقیقت کو مسلط کرنے کی کوشش کرے تو اسے عرب دنیا قطعی طور پر مسترد کر رہی رہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی اتھارٹی دراصل غزہ کی پٹی میں بہت سے معاملات کا انتظام کرتی ہے اور 2007 میں فلسطین کی تقسیم کے بعد حماس کے کنٹرول میں آنے کے بعد بھی فلسطینی اتھارٹی وہاں اپنی ذمہ داری سے دستبردار نہیں ہوئی۔ احمد مجدلانی نے کہا کہ غزہ کی انتظامیہ کا تعین کرنا نیتن یاہو یا بائیڈن نہیں بلکہ صرف فلسطینیوں کا موروثی حق ہے۔
انہوں نے مزید کہا تنازع کو ختم کرنے کا واحد حل اسرائیل کی بین الاقوامی قانونی قراردادوں کی بنیاد پر دو ریاستی حل کے اصول سے وابستگی ہے۔
احمد مجدلانی نے نشاندہی کی کہ غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی واپسی کا انحصار اقوام متحدہ کی دو ریاستی حل کو منظور کرنے والی سیاسی قرارداد کے مطابق ہونے پر ہے۔