بہاولپور، اسلامیہ یونیورسٹی میں درجنوں نازیبا ویڈیوز کا مبینہ اسکینڈل کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی قیامِ پاکستان سے قبل 1928ء میں مصر کی جامعہ الازہر کی طرز پر بنائی گئی اور ابتدا میں اس کا نام جامعہ عباسی تھا جو بدل کر اسلامیہ یونیورسٹی کردیا گیا۔

اسلامیہ یونیورسٹی کا بڑا اسکینڈل

پنجاب میں زیادہ تر سرائیکی آبادی پر مشتمل بہاولپور ڈویژن کے مرکزی شہر سے 8کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اسلامیہ یونیورسٹی کیلئے صحرا کے ٹیلے سبزہ زاروں میں تبدیل کردئیے گئے جہاں عام درس و تدریس کے علاوہ فاصلاتی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

اورنگی میں لڑکی سے غیر اخلاقی حرکت کرنے والا ملزم دھر لیا گیا

یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہماری جامعہ کو بدنام کیا جارہا ہے جبکہ بہاولپور پولیس کا دعویٰ ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ایک اہلکار کے موبائل فون سے لڑکیوں کی 400 نازیبا ویڈیوز اور تصاویر برآمد کی گئی ہیں جنہیں فرانزک کیلئے روانہ کردیا گیا۔

مقدمات کا اندراج

پولیس اسلامیہ یونیورسٹی کے 3 عہدیداران کے خلاف آئس رکھنے کے الزام میں 3 مقدمات درج کرچکی ہیں، 2 ماہ پہلے آئس رکھنے کے الزام میں ایک پروفیسر گرفتار ہوئے تھے جو ضمانت پر رہا ہو گئے جبکہ پولیس نے اسی الزام میں 2 مزید عہدیداران کو گرفتار کر لیا۔

حکام کا دعویٰ ہے کہ یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیدار کے موبائل فون سے 400 فحش ویڈیوز برآمد ہوئیں جن کے بارے میں خیال یہ ہے کہ ویڈیوز میں طالبات اور یونیورسٹی کے مختلف حکام موجود ہیں جبکہ ایک یونیورسٹی اہلکار سے منشیات بھی برآمد ہوئی ہیں۔

تاہم یونیورسٹی کے قانونی مشیر نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ پولیس ہمیں کوئی ایک ویڈیو بھی دکھا نہیں سکی۔ ایسا کچھ نہیں ہے، اس لیے یونیورسٹی کا میڈیا ٹرائل بند کیا جائے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فرانزک رپورٹ آنےپر درج مقدمات میں مزید دفعات شامل کریں گے۔ 

تہلکہ خیز انکشافات 

بعد ازاں اسلامیہ یونیورسٹی اسکینڈل کی تحقیقات میں تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے۔ نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو فرانزک رپورٹ روانہ کردی گئی جو میڈیا تک پہنچ گئی۔

بعض میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی کی حدود میں اور باہر بھی اخلاق باختہ محفلیں سجائی جاتی ہیں اور اساتذہ سمیت متعدد شعبہ جات کے سربراہان مبینہ طور پر اس مکروہ فعل میں ملوث پائے گئے۔

رپورٹس کے مطابق فارم ہاؤسز پر کئی مخربِ اخلاق محفلیں سجیں اور طالبات کو مبینہ طور پر نشے کا عادی بنا کر جنسی استحصال کیا گیا۔ جامعہ کے 11 طلبہ کریمنل ریکارڈ یافتہ ہونے کا انکشاف بھی سامنے آیا۔

طلبہ اور اساتذہ سمیت متعدد افراد کے منشیات فروشی میں ملوث ہونے کے الزامات سامنے آئے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کی لیگل ٹیم ہائیکورٹ اور آئی جی پنجاب سے رجوع کرچکی ہے۔ گرفتار ہونے والے دونوں افراد کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیاجارہا ہے۔

وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی نے ائی جی کو خط لکھا جس میں کیسز کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ افسران کو بوگس کیسز میں پھنسایا اور جامعہ کی ساکھ کو مجروح کیاجارہا ہے۔ اب تک یونیورسٹی کے 2 افسران سمیت 3 ملزمان کی گرفتاریاں ہوچکیں۔ گرفتار افراد سے آئس نشہ اور موبائل فونز سے نازیبا ویڈیوز برآمد ہونے کا انکشاف سامنے آیا تھا۔ 

Related Posts