روس یوکرین تنازع کیا، حل کیسے ممکن ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کئی مہینوں تک یوکرین پر حملہ کرنے سے انکار کرنے کے بعد جمعرات کو یوکرین پر حملہ کرکے بات چیت کے دروازے بند کردیئے ہیں، روس یوکرین کشیدگی کے بعد پوری دنیا کی معیشت پر گہرا اثر دیکھنے میں آیا جبکہ تیل کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔

اصل تنازع

روس اور یوکرین کے تعلق کی تاریخ نویں صدی سے شروع ہوتی ہے جب کیف قدیم روسی سلطنت کا دار الحکومت بنا تھا اور سن988 میں شہزادہ ولادیمر نے روس کو آرتھوڈکس مسیحیت سے متعارف کرایا تھا۔آج یہی شہر یوکرین کا دارالحکومت ہے۔سن 1654 میں روس اور یوکرین ایک معاہدے کے تحت زارِ روس کی سلطنت میں متحد ہوگئے تھے اور بعد میں یہ سوویت یونین میں بھی ساتھ رہے۔

مورخین کے مطابق روسی سلطنت کے دور ہی سے یوکرین کی علیحدہ شناخت برقرار رکھنے کی کوششوں کو دبایا گیا۔اس کے لیے یوکرین کی زبان پر بھی کڑی پابندیاں عائد کی گئیں۔

 1917 کے انقلاب کے بعد بھی فوجوں نے یوکرین پر حملے جاری رکھے اور یوکرین کے علیحدہ ملک بننے والی کسی آواز کو سر نہیں اٹھانے دیا۔وٹوٹسکی کے بقول یوکرین کی علیحدہ حیثیت کو تسلیم نہ کرنا وہ واحد نکتہ تھا جس پر روس میں انقلاب لانے والے اور ان کی مخالف روسی فوج دونوں یکساں مؤقف رکھتے تھے۔

اس تاریخی پس منظرر کی وجہ سے یوکرین نے بیشتر مغربی ممالک کے ساتھ اپنے روابط مضبوط بنانے شروع کردیے۔ اسی طرح نیٹو نے بھی مشرقی ممالک میں اپنا دائرہ کار بڑھانے کیلئے کئی ممالک کو دفاعی اتحاد کا حصہ بنانا شروع کیا جن میں یوکرین بھی شامل ہے۔

کشیدگی

روس ایک عرصے سے یوکرین کی یورپی تنظیموں جیسے کہ نیٹو اور یورپی یونین سے قربتوں کا شدید مخالف رہا ہے تاہم اب روسی صدر نے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرین مغربی ممالک کی ’کٹھ پتلی‘ ہے اور روسی صدر کے مطابق یہ خطہ کبھی بھی ایک باقاعدہ ریاست نہیں تھا۔

انھوں نے مغربی ممالک اور یوکرین سے ضمانت طلب کی ہے کہ یوکرین 30 ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو کا حصہ نہیں بنے گا اور ایک غیرجانبدار ریاست کے طور پر رہے گا۔

اقوام عالم

اقوام عالم کی جانب سے روس یوکرین کشیدگی پر شدید ردعمل سامنے آرہا ہے، دنیا کے بااثر ممالک نے روس کو خبردار کرنے کی پوری کوشش کی لیکن روس کی جانب سے حملے کے بعد متعدد ملکوں نے روس پر پابندیاں عائد کردی ہیں، جن میں برطانیہ، امریکا، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا شامل ہیں۔

موجودہ صورتحال

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ روسی فوج نے یوکرین کے چرنوبیل ایٹمی پاور پلانٹ پر قبضہ کر لیا ہے جس کی یوکرین نے بھی تصدیق کردی ہے۔ روسی فوج بیلا روس کے راستے یوکرین کے دارالحکومت کیف میں داخل ہو گئی تاہم اس حملے سے یوکرین کے چرنوبیل جوہری پاور پلانٹ محفوظ ہیں اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاہے جبکہ دو روز سے جاری لڑائی میں اب تک ڈیڑھ سو کے قریب اموات اور درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

جنگ کے اثرات

روس یوکرین کے تنازع نے سب سے زیادہ تیل کی تجارت کو متاثر کیا ہے، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے کیونکہ روس دنیا کو تیل سپلائی کا تقریباً 12 فیصد حصہ رکھتا ہے اور یورپی یونین کو تقریباً 40 فیصد گیس فراہم کرتا ہے۔ پائپ لائنوں کے یوکرین سے گزرنے کے باعث تنازعہ میں خلل پڑنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ مغرب سخت پابندیوں کی تیاری کر رہا ہے لیکن اس کے عالمی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور روس پر اس کا کوئی خاص اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے۔ جنگ اور پابندیوں کے امکان نے وبائی مرض سے بمشکل ابھرنے والی عالمی معیشت کو خطرہ لاحق کردیا ہے۔

ممکنہ حل

بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق مسئلے کا فوری حل تو فی الحال سامنے نہیں آرہا کیونکہ جس طرح سے مغربی ممالک کی پابندیوں کے باوجود بھی روس اپنی جارحیت پر قائم ہے اسے دیکھتے ہوئے تو یہی لگ رہا ہے کہ دنیا ایک نئی عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے تاہم ماہرین کے مطابق روس اور دیگر عالمی طاقتیں اگر کسی نکتے پر اتفاق کرلیں تو انسانی جانوں کا ضیاع اور معاشی نقصان کم کیا جاسکتا ہے۔

Related Posts