پنج شیر—-قضیہ کیا ہے؟—-انجام کیا ہوگا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

What is the case for panjshir

 افغانستان کی تازہ صورتحال نے ہر کسی کو حیران کیا۔۔۔۔۔گزشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان میں جو کچھ ہوا۔۔۔۔ہورہا ہے۔۔۔۔یا آنے والے دنوں میں ہونے کی توقع ہے اس کی طرف سب لوگ ہی متوجہ ہیں لیکن ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو افغانستان کی تاریخ، افغانستان کے حالات اور افغانستان میں گزشتہ چار عشروں کے دوران آنے والے نشیب و فراز سے ناواقف ہیں اس لیے ایسے لوگوں کے لیے افغانستان کی صورت کو سمجھنا مشکل ہو رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں پنج شیر اور احمد مسعود جونیئر کا قضیہ زیر بحث آیا تو تخت کابل کی طرح سب کی نظریں پنج شیر پر لگی ہیں حتیٰ کہ اربوں ڈالر جھونک دینے کے باوجود جن لوگوں کے مقصد کی تکمیل کے لیے باقاعدہ اور منظم سرکاری اور ریاستی فورسزکچھ نہ کر پائیں وہ طالبان کے وہ مخالفین اور بیرونی جواری بھی پنج شیر کو اپنا آخری سہارا سمجھنے لگتے ہیں اور ادھر طالبان کے بہی خواہ بھی پنج شیرسے متعلق اطلاعات پر پریشان دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ایسے میں پنج شیر کا قضیہ اپنے پورے پس منظر اور تاریخی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ جس وقت روسی ریچھ افغانستان پر حملہ آور ہوا اور افغانستان میں مزاحمت کے لیے صف بندی شروع ہوئی تب اس صف بندی میں پاکستان اور پاکستانی ادارے پیش پیش تھے ایسے میں یوں تو بہت سے لوگ سامنے آتے ہیں لیکن ہم یہاں خاص طور پر کابل یونیورسٹی کےاستاذ برہان الدین ربانی اور ان کے دو شاگردوں گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کا تذکرہ کریں گے۔

گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود بنیادی طور پر پاکستانی نرسری میں اگنے والے پودے ہیں جنہیں ہماری طرف سے عسکری،سیاسی،اخلاقی الغرض ہر قسم کی خوراک مہیا کی جاتی رہی۔۔۔۔۔مسلسل ان کی پشت پناہی ہوتی رہی اور افغانستان کی تحریک حریت میں ان لوگوں نے بلاشبہ بھرپور کردار ادا کیا۔۔۔۔یہ کردار صرف ان دو شخصیات تک ہی محدود نہ تھا روسی جارحیت کے خلاف جہاد کرنے والی شخصیات، تحریکوں،علاقوں اور لوگوں کی ایک مکمل تاریخ اور ان کی قربانیوں کی پوری داستان ہے جس کا یہ مختصر سا کالم متحمل نہیں جن میں سے مولانا جلال الدین حقانی،مولانا محمد ارسلان رحمانی،مولانا محمد یونس خالص،مولانا محمد نبی محمدی،استاذ سیاف، مولانا نصراللہ منصوربطور خاص قابل ذکر ہیں۔

ہم اپنی بات کو گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود تک اس لیے محدود رکھیں گے تاکہ پنج شیر قضیہ کا پس منظر سمجھا جاسکے۔

گلبدین حکمت یار پختون ہیں اور اسی کی دہائی میں پاکستان میں جماعت اسلامی نے جس طرح ان کی پذیرائی کی اس کی وجہ سے وہ پاکستان میں خاصے مقبول رہے اور ہمیشہ ہی پاکستانی کیمپ کا حصہ سمجھے جاتے رہے یہاں تک کہ طالبان کی تحریک اٹھی اور حکمت یار بتدریج پس منظر میں چلے گئے اورحالیہ امریکی مزاحمت کے دوران حکمتیار ایک تو غیر موثر اور غیر فعال رہے

دوسرے ان کا جھکاؤ پاکستان سے زیادہ ایران کی طرف دکھائ دیا لیکن اس کے باوجودآج بھی حکمت یار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہےجب کہ احمد شاہ مسعود اس پورے عرصے میں ایک شاطر کھلاڑی اور متلون مزاج شخص کے طور پر سامنے آئے ان کی اٹھان پاکستانی کیمپ سے ہوئی۔۔۔۔ وہ اقتدار کے ایوانوں تک پاکستانی بیساکھیوں کے سہارے پہنچے۔۔۔۔ انہیں عرب دنیا یہ پاکستانی حلقوں نے متعارف کروایا۔۔۔لیکن پھر ایک وقت آیا جب احمد شاہ مسعود طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان مخالف کیمپ میں جا پہنچے اور پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے۔

آپ کواحمد شاہ مسعود اور پنج شیر کے بارے میں 2 طرح کی داستانیں سننے کو ملیں گی عمومی طور پر تو احمد شاہ مسعود کو روسی مزاحمت کے سامنے حریت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے،انہوں نے جہاد کے ابتدائی دور میں بلاشبہ بہت اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔۔۔ ان کی جراحت و بہادری کو لوک کہانیوں کی حیثیت حاصل ہوئی۔۔۔۔ انہیں شیر پنج شیر کہا جاتا رہا۔پنج شیر کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ بلکہ آج تک کہیں کہیں سے اس کی گونج سنائی دیتی ہے کہ پنج شیر ہمیشہ ہی ناقابل تسخیر ہے۔

روس بھی اس وادی کو فتح نہیں کر پایا یہاں کا بچہ بچہ حتیٰ کہ عورتیں تک مسلح ہیں۔۔۔۔ پنج شیر کا محل وقوع اور جغرافیائی حیثیت ہی ایسی ہے کہ وہاں پر کسی قسم کی بیرونی مہم جوئی کامیاب ہو ہی نہیں سکتی۔۔۔۔لیکن دوسری طرف یہ نقطہ نظر بھی پایا جاتا ہے کہ احمد شاہ مسعود کی باقاعدہ “امیج بلڈنگ” کی گئی،انہیں غیر حقیقی طور پر یہ ایک طلسماتی شخصیت باور کروایا گیا۔۔۔۔۔وہ جوڑ توڑ اور ساز باز کے ماہر تھے اور صرف ضمیر کا سودا ہی نہ کرتے تھے بلکہ پنج شیر اور بدخشاں میں پائے جانے والے قیمتی پتھروں کے بھی سوداگر تھے۔۔۔۔انہوں نے پتھروں کے سوداگروں سے ساز باز کرکے ہمیشہ جنگیں دوسرے میدانوں میں لڑیں اور پنج شیر کو جنگ کی بھٹی سے دور رکھا۔

دوسرا موقف رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پنج شیر کا شیر اردو والا شیر نہیں بلکہ فارسی کا شیر ہے جو شین کی زیر کے ساتھ دودھ کے معنی میں ہے اور اس علاقے میں بھیڑ بکریوں اور دودھ کے لیے پائے جانے والے جانوروں کی نسبت سے جانا جاتا تھا لیکن نظریہ ضرورت کے تحت اسے اردو والا شیر بنا کر کہانیاں گھڑی گئیں اور احمد شاہ مسعود کو شیرپنج شیر بنا دیا گیا۔

احمد شاہ مسعودپہلی دفعہ روسی مزاحمت کے موقع پر سامنے آئے اس کے بعد مجاہدین رہنماؤں کے اقتدار سنبھالنے کے مرحلے پر جوڑ توڑ اور بساط کےمہروں کی چالوں پر نظر رکھنے والے احمد شاہ مسعود پیش پیش رہے۔بعد ازاں جب طالبان کی تحریک اٹھی تو احمد شاہ مسعود اور جنرل عبدالرشید دوستم نے لسانی اور علاقائی بنیادوں پر طالبان مخالف دھڑوں پر مشتمل شمالی اتحاد تشکیل دیا۔

شمالی اتحادافغانستان کے پختون حصے کے علاوہ فارسی، دری اور دیگر زبانیں بولنے والے تاجک،ازبک نسلوں اور قبیلوں سے تعلق رکھنے والے اور ایرانی سائے تلے پروان چڑھنے والے ہزارہ قبائل شامل تھے اور خلافت اور امارت اسلامیہ اور طالبان کی فتوحات کو روکنے کے لئے دنیا بھر کی اسلام مخالف قوتیں بالخصوص انڈیا،روس،ایران اور پنج شیر و بدخشاں کے قیمتی پتھروں کے خریدار۔۔۔۔سب کے سب اس شمالی اتحاد کی پشت پر تھے لیکن اس کے باوجود یہ سب طالبان کو تخت کابل تک پہنچنے اور امارت اسلامیہ کے قیام سے نہ روک پائے لیکن جب نائن الیون کے بعد امریکہ حملہ آور ہوا تو اس موقع پر اگرچہ احمد شاہ مسعود امریکی حملے سے قبل ہی القاعدہ کے ہاتھوں مارا گیا تھا لیکن اس نے شمالی اتحاد کا خمیر جن مقاصد اور جن کے تعاون سے اٹھایا تھا ۔

انہوں نے ظلم و ستم، غداری،وطن فروشی اور دھوکہ دہی کی عجیب داستانیں رقم کیں جو کابل سے لے کر دشت لیلی اور شبرغان سے لے کر پنج شیر تک پھیلی ہوئی ہیں- امریکی چھتری تلے شمالی اتحاد کی باقیات اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں لیکن جب امریکہ بدترین شکست سے دوچار ہوا تو پھر سے سب کی نظریں شمالی اتحاد کے انہی مہروں پر لگ گئیں لیکن اب کی بار افغان فورسز کی طرح عبدالرشید دوستم جیسے خونخوار بھی اپنے آقاؤں کے لئے کچھ نہ کر پائے اور سارے برج ہی الٹ گئےاور دشمن کی صفوں میں سراسیمگی اور مایوسی پھیل گئی ۔

ایسے میں افغانستان کے باتونی اور پاکستان مخالف نائب صدر امراللہ صالح کی کھوکھلی بیان بازی اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے مسعود جونیئر کی بھڑکیں انڈیا سے لے کر فرانس تک اور دوستم سے لے کر پاکستانی ملحدین تک سب کا آخری سہارا ثابت ہورہی ہیں اور یوں احمد مسعود جونیئر اور پنجشیر ایک مرتبہ پھر سب کی توجہ کا مرکز بن گیاہےلیکن یاد رہے کہ اب کی بار صورتحال کئی اعتبار سے مختلف ہے۔

1 طالبان نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار کیا تو چھوٹے موٹے دھڑے چہ معنی دارد۔
2 شمالی اتحاد کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور اب مسعود جونیئر اتحاد کے طور پر نہیں بلکہ اپنی ذاتی حیثیت سے طبع آزمائی کر رہا-
3 طالبان کے پاس چالیس سالہ جنگ کا تجربہ ہے۔
4 طالبان نے اپنی تحریک سے لے کر تاحال تقریبا ربع صدی ایک اکائی کے طور پرجہاد،اقتدار،تحریک اور مزاحمت کاسفر کیا جبکہ دیگر عناصر چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں اور اپنی اپنی شناخت کے ساتھ اپنی بقاء کے لیے ہاتھ پاوں مار رہے تھے۔
5-اب کی بار طالبان صرف پختونوں پر مشتمل نہیں بلکہ تاجک اور شمالی علاقوں کے بہت سے قبیلوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ طالبان کا حصہ ہیں۔
6- صرف مسعود جونیئر اپنی ویلیو بڑھانے کے لیے بیان بازی کر رہا ہے جبکہ اس کے دو چچا یعنی احمد شاہ مسعود کے بھائ،ساتھی اور خاندان اور گروپ کے دیگر لوگ بھی اس کے ساتھ نہیں اور اس کے طرز عمل کو نادانی قرار دے رہے ہیں۔
7- گزشتہ تحریک کے دوران پنجشیر کی پشت پر بدخشاں اور پوری شمالی پٹی تھی جبکہ اب کی بار طالبان نے کابل سے بھی پہلے بدخشاں سمیت پنج شیر سے ملحقہ علاقوں اور شمالی اتحاد کے زیر اثر صوبوں پرکنٹرول حاصل کیا۔
8-پہلے جہاں جہاں سے بیرونی امداد اور کمک پہنچنے کے امکانات تھے اب کی بار ساری راہیں مسدود ہیں اور کوئ راستہ پنج شیر تک نہیں پہنچ پاتا-
9 احمد مسعود جونیئر کم عمر اور ناتجربہ کار ہیں وہ دوسروں کی ہلہ شیری سے خود کو احمد شاہ مسعود سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں جو انہیں بہت مہنگی پڑے گی۔
10 اب کی بار اس لحاظ سے بھی صورت حال مختلف ہے کہ طالبان نے چائنہ،روس حتی کہ ایران سمیت دیگر کئ علاقائ قوتوں اور ممالک کو پہلے سے “انگیج”کر رکھا ہے اور وہ مسعود جونیئر کے بجائے طالبان سے بنا کر رکھنے میں ہی عافیت سمجھیں گے-

ان سب وجوہات کے ہوتے ہوئے پنجشیر کا مسئلہ اب کی بار طالبان کے ہاں کوئی مسئلہ ہی نہیں لیکن چونکہ اب کی بار طالبان کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ہرات کے کمانڈر اسماعیل کی جس طرح طالبان نے عزت افزائی کی۔۔۔۔ گل بدین حکمتیار کی اقتداء میں طالبان کے وفد نے جیسے نماز ادا کی اور دیگر کئی ایسے اقدامات اٹھائے جن سے لگتا ہے کہ طالبان مفاہمت کا راستہ اپنا رہے ہیں اور سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اس لیے وہ اب تک مسعود جونیئر کے سدھرنے کے منتظر رہے ورنہ اب پنجشیر کوئی مشکل ہدف نہیں جبکہ طالبان کی صفوں میں خاص طور پر صف اول کےسینئر لوگوں کے علاوہ تقریبا سب کا ہی یہ خیال ہے کہ لگے ہاتھوں پنجشیر کا مسئلہ بھی جنگ کے ذریعے ہی حل ہونا چاہیے تاکہ یہ کانٹا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل جائے لیکن لگتا ہے کہ مسعود جونیئر نے اپنی ناعاقبت اندیشی اور امر اللہ صالح جیسے ہلہ شیری دینے والوں اور بعض بیرونی قوتوں کے اشارے پر اپنے لئے نادانی والے راستے کا انتخاب کیا ہے-

طالبان حکومت کیسی کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن وقت نے بہرحال یہ ثابت کر دیا ہے کہ جنگ کے میدان میں طالبان سے پنجہ آزمائی گھاٹے کا سودا ہے۔۔۔ دیکھیے! پنج شیر کا کیا انجام ہوتا ہے؟۔

Related Posts