وہ القاب کیا ہوئے؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جمہوریت میں انتخابات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ووٹ ڈالنے کا حق آئینِ پاکستان میں عوام کو دیا گیا ایک بنیادی حق ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ شہری اپنی پسند کا حکمران خود چننے کا حق رکھتے ہیں۔

دراصل انتخابات لوگوں کو جمہوری عمل میں حصہ لینے اور اپنے لیڈر منتخب کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔پاکستان میں الیکشن کمیشن آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم، حالیہ پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیشن نے اپنے آئینی فرائض کماحقہ ادا نہیں کیے۔

الیکشن کرانے کے لیے وفاقی  حکومت نے فنڈز جاری کرنے سے انکار کردیا اور کہا جارہا ہے کہ سکیورٹی فراہم نہیں کی جاسکتی، نہ ہی فنڈز دئیے جاسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے انتخابی عمل کی سالمیت داؤ پر لگ چکی ہے۔

ایک حالیہ خبر سے پتہ چلتا ہے کہ وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف نے پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کی کھل کر مخالفت کی اور ایک سال قبل حکومت سنبھالنے کے وزیر اعظم شہباز شریف کے مقاصد پر سوال اٹھایا۔ یہ پیش رفت سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے اندر بڑھتی ہوئی دراڑ کی علامت ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کا 14 مئی کو انتخابات نہ ہونے کی صورت میں آئین ٹوٹنے کے امکان سے متعلق حالیہ تبصرہ بھی تشویشناک ہے۔ انہوں نے جنرل باجوہ پر حکومت پر چوروں کا بینڈ مسلط کرنے کا الزام لگایا ہے اوریہ بھی کہا کہ اگر حکومت ستمبر اکتوبر کی بات کرتی ہے تو مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں۔

دوسری جانب حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتی نظر آتی ہے، پاکستان میں سیاسی بحران ابھی ختم نہیں ہوا۔ ملک کو معاشی اور سیاسی مشکلات کا سامنا ہے، اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھے ہونے اور تمام تر مسائل کے حل کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ 75سال سے مسلسل مختلف مسائل اور مشکلات کا شکار عوام تمام تر معاشی بدحالیوں، بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ آچکے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو چاہئے کہ سیاسی رسہ کشی بند کریں اور عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔

حکومت کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ایک جانب تو مذاکرات کی باتیں اور دوسری جانب جس موضوع پر مذاکرات ہو رہے ہیں، اس میں لچک کا مظاہرہ نہ کرنا مذاکرات کی موت کے مترادف ہوگا جس سے وفاقی وزراء کے جمہوریت نوازی، انسان دوستی اور امن خواہی کے دعوے پامال ہوں گے، بقول ساحر لدھیانوی:

جمہوریت نواز، بشر دوست، امن خواہ

خود کو جو خود دئیے تھے، وہ القاب کیا ہوئے؟

Related Posts