شام میں ایک تیز اور اہم تبدیلی سامنے آئی ہے، جہاں باغی فورسز نے دارالحکومت دمشق پر کنٹرول حاصل کر لیا اور صدر بشار الاسد کے دو دہائیوں پر مشتمل اقتدار اور الاسد خاندان کی پانچ دہائیوں کی حکمرانی کا اختتام ہو گیا ہے۔
یہ کامیابی حیران کن رفتار سے حاصل کی گئی، جہاں باغیوں نے کلیدی شہروں پر معمولی مزاحمت کے ساتھ قبضہ کر لیا۔ اطلاعات کے مطابق صدر الاسد ملک سے فرار ہوکر روس پہنچ گئے ہیں۔
باغیوں کی پیش قدمی
یہ حملہ نومبر کے آخر میں حیات تحریر الشام اور اتحادی گروپوں کی قیادت میں شروع ہوا۔ حلب پر قبضے کے بعد باغی جنوب کی طرف تیزی سے بڑھے، حما اور حمص پر قابض ہو کر دمشق پہنچ گئے۔ ان واقعات نے شامی عوام میں آزادی کی امید اور مستقبل کے بارے میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔
شام میں غیر ملکی مداخلت
شام کی خانہ جنگی ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک علاقائی اور عالمی طاقتوں کے لیے دلچسپی کا مرکز رہی، جہاں ہر طاقت نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف دھڑوں کی حمایت کی۔
1۔روس: الاسد حکومت کا مضبوط اتحادی رہا جس نے فضائی حملوں اور ساز و سامان کی مدد فراہم کی۔
2۔ایران: تہران اور اس کی اتحادی ملیشیاؤں، بشمول حزب اللہ نے الاسد کی عسکری طاقت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
3۔امریکا: امریکی پالیسی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردوں کی قیادت والے گروپوں کی حمایت کی اور اپوزیشن فورسز کو معاونت فراہم کی۔
4۔ترکی: انقرہ نے اپنی سرحد کے قریب کرد فورسز کو کمزور کرنے اور باغی دھڑوں کی حمایت پر توجہ مرکوز کی۔
5۔خلیجی ممالک: سعودی عرب، قطر، اور دیگر نے الاسد مخالف دھڑوں کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کی۔
الاسد حکومت کا خاتمہ
الاسد حکومت کے اچانک خاتمے نے اس کی کمزوری کو ظاہر کیا، جو کئی سالوں کے نقصانات، معاشی مشکلات، اور اتحادیوں کی کمزور ہوتی حمایت کے باعث ممکن ہوا۔
مثال کے طور پرروس کی توجہ یوکرین کی جنگ کی جانب مبذول ہو ئی۔ایران کو اسرائیلی فضائی حملوں اور شام میں سپلائی لائنز پر نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔حزب اللہ، جو پہلے اہم کردار ادا کر رہی تھی، لبنان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے کمزور ہو گئی۔
بین الاقوامی اور علاقائی ردعمل
عالمی برادری نے ان واقعات پر محتاط ردعمل ظاہر کیا:
امریکا: صدر جو بائیڈن نے پرامن انتقال اقتدار پر زور دیا اور خطے کے استحکام کے لیے تعاون کا وعدہ کیا۔
روس: ماسکو نے شام میں ممکنہ خلا پر تشویش کا اظہار کیا لیکن فوری مداخلت سے گریز کیا۔
ترکی: ترک رہنماؤں نے الاسد کے خاتمے کا خیر مقدم کیا لیکن انتہا پسند گروہوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے پر زور دیا۔
شام کا مستقبل
الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام کو کئی چیلنجز اور مواقع کا سامنا ہے:
1۔انتقال اقتدار: ایک جامع اور نمائندہ حکومت کی تشکیل طویل المدتی استحکام کے لیے ضروری ہوگی۔
2۔انسانی امداد: لاکھوں بے گھر شامیوں کی ضروریات کو پورا کرنا فوری ترجیح ہے۔
3۔سیکورٹی خدشات: عبوری دور میں انتہا پسند گروہوں کو قابو میں رکھنا اہم ہوگا۔
شامی عوام کے لیے یہ ایک نئی شروعات ہے لیکن عالمی برادری کا تعاون شام کی تعمیرِ نو اور استحکام میں اہم کردار ادا کرے گا۔