مذہبی جماعتوں کے ٹرانس جینڈر ایکٹ پر کیا تحفظات ہیں؟سمیع الحق سواتی سے خصوصی گفتگو

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مذہبی جماعتوں کے ٹرانس جینڈر ایکٹ پر کیا تحفظات ہیں؟سمیع الحق سواتی سے خصوصی گفتگو
مذہبی جماعتوں کے ٹرانس جینڈر ایکٹ پر کیا تحفظات ہیں؟سمیع الحق سواتی سے خصوصی گفتگو

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں پیش کیا جانے والا متنازع بل ٹرانس جینڈر ایکٹ کیا ہے؟ اس بل کا ایل جی بی ٹی کیوسے کیا تعلق ہے؟جن کے حق میں یہ بل پیش کیا گیا ہے یعنی ”خواجہ سراء“ وہ بھی اس بل کی مذمت کررہے ہیں، اس اہم موضوع پر گفتگو کرنے کے لئے ہم نے سمیع الحق سواتی صاحب،ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات جمعیت علمائے اسلام (سندھ)اور عنایت الرحمن شمسی صاحب معروف مذہبی تجزیہ نگارکو ایم ایم نیوز آنے کی دعوت دی اور اس حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی جو قارئین کی نظر ہے۔

ایم ایم نیوز:جمعیت علمائے اسلام نے سب سے پہلے اس بل پر اعتراض اُٹھائے، کیا اعتراض ہیں ایسے جس کے باعث یہ بل متنازع ہوجاتا ہے؟

سمیع الحق سواتی: یقینا یہ جو بل ہے 2018میں پاس ہوا، اُس وقت یہ بل سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی پیش ہوا، دونوں جگہوں پر یہ ایسے دن پیش کیا گیا جس دن اراکین کی تعداد بہت کم تھی، قومی اسمبلی میں جب پیش کیا گیا تو قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام کی خاتون رکن نعیمہ کشور صاحبہ موجود تھیں، انہوں نے اس بل کو آڑے ہاتھوں لیا، انہوں نے ایاز صادق صاحب کو مجبور کیا کہ آپ اس بل کو اس طرح سے ہاؤس سے منظور نہ کروائیں، انہوں نے کہا کہ آپ اس بل کو کمیٹی میں لے جائیں اس پر بحث ہونی چاہئے، یہ بڑا حساس معاملہ اگر آپ اس کو اسی طرح سے پاس کروائیں گے تو آگے جاکر یہ بل ہماری معاشرتی اقدار سے ٹکرائے گا اور وہی ہوا جو آج نظر آرہا ہے، اس بل کو خواجہ سراؤں کی محرومیوں کی آڑ میں لایا گیا تھا، مذہبی تنظیموں کو جو بنیادی اعتراض ہے وہ چیپٹر 2میں تمام چیزی موجود ہیں، کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ لوگوں کو موقع فراہم کرتا ہے، بنیادی طور پر جو خواجہ سراء ہیں اُن کے اندر نہ مردوں والی علاماتیں اور نہ عورتوں والی علامات ہیں، اس بل کے مطابق خواء سراء اگر علامات کے طور پر مرد ہوں اور نادرا کے پاس کے پاس جا کر کہے مجھ میں خواتین والی علامات ہیں تو نادرا اسے خاتون لکھنے کا پابند ہوگا۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہم جنس پرستی کی طرف جانے راستہ ہے، اسی باعث مذہبی تنظیموں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی ہے۔

ایم ایم نیوز: کیا اس بل کے پیچھے وہی لوگ تو نہیں جو یہ کہتے ہیں ”میرا جسم میری مرضی“ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

سمیع الحق سواتی: بالکل یہ ہوسکتا ہے، جو لوگ پہلے ”میرا جسم میری مرضی“ کے سلوگن پر کام کررہے تھے اب وہ اسی سلوگن پر کام کررہے ہیں، حیرت تو آپ کو اس بات پر ہوگی کہ اس ایکٹ کے خلاف مذہبی جماعتیں ہی نہیں بلکہ اصل خواجہ سراء بھی احتجاج کررہے ہیں، کیونکہ خواجہ سراؤ کا اس پورے بل سے تعلق نہیں ہے، صرف چند حصوں سے تعلق ہے۔

ایم ایم نیوز: خواجہ سراؤں کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے لئے ہماری مذہبی جماعتوں کو آگے آنا چاہئے، اورحکومت کے ساتھ بیٹھ کر کوئی ایسا فریم ورک تشکیل دینا چاہئے کہ ان کے مسائل حقیقی معنوں میں حل ہوسکیں، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

سمیع الحق سواتی: اسلام میں خواجہ سراؤں کو بہت زیادہ حقوق دیئے ہیں،مسجد میں نماز کے لئے ان کے لئے ایک الگ صف ہے، اسلام نے ان کو ہر فورم پر حقوق دیئے، جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے اس حوالے سے بہت کام ہورہا ہے، یہ جو ٹرانس جینڈر بل ہے یہ تبدیل ہوگا، جو ابہام اس وقت ہے، مغربی لابی جو کام کررہی ہے، انشاء اللہ انہیں ناکامی ہوگی۔

ایم ایم نیوز: اس بل کو ٹرانس جینڈر ایکٹ کیوں کہا جارہا ہے اور اس بل میں ایسی کون سی شقیں ہیں جو متنازع ہیں؟

عنایت شمسی: یہ بل نہیں بلکہ ایکٹ ہے جو قانون بن چکا ہے، یہ ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018ہے، جب یہ بل پیش ہوا اور منظور بھی ہوا، اس کا بیک گراؤنڈ کچھ اس طرح کہ ہمارے معاشرے میں کچھ طبقات ہیں، کچھ کو تمام حقوق میسر ہیں، کسی کو حقوق میسر نہیں ہیں، کچھ طبقات پسے ہوئے ہیں، جبکہ ایک طبقہ خوا جہ سراؤ کا ہے، یہ بھی ایک مظلوم طبقہ ہے، جب ان کے جینڈر کی شناخت ہوجاتی ہے، تو انہیں گھروں سے نکال دیا جاتا ہے، 2009میں خواجہ سراؤں کی رہنماء الماس بوبی نے سپریم کورٹ کا رخ کیا، سپریم کورٹ نے ان کی درخواست کو سماعت کے لئے منظور کیا اور سماعت ہوئی، اُس وقت کے موجودہ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ خواجہ سراؤں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق فراہم کئے جائیں، مگر افسوس کہ اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

Related Posts