اگر آپ غور کیجئے تو ہمارے روایتی مکاتب فکر کے علماء کی کل بھاگ دوڑ یہ ہے کہ فیملی یعنی مکتب فکر کی حفاظت کرنی ہے۔ چنانچہ آپ کو ان کے فالورز بھی بس وہی ملتے ہیں جو پہلے سے مذہبی ذہن رکھتے ہیں۔ غیر مذہبی ذہن کو اپیل کرنے کی یہ استعداد ہی نہیں رکھتے۔
آپ دیوبندیوں کے مشہور سوشل میڈیا اکاؤنٹس دیکھ لیجئے، سارے فالورز آپ کو وہی ملیں گے جو پہلے سے مذہبی ذہن رکھتے ہیں۔ گویا یہ ہم خیال لوگوں کی انجمنیں ہیں اور وہ بھی انجمن ستائش باہمی۔ اب وہ بیشک خوش ہوتے رہیں کہ ہمارے بہت فالورز ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی دعوت کسی اجنبی کو کھینچ کر مذہب کی جانب نہیں لا رہی۔ دیوبندیوں میں ایک مولانا طارق جمیل تھے جو غیر مذہبی ذہن کو متاثر کرنے اور دین کی جانب راغب کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے تھے۔ مگر انہیں اچانک داعی کے بجائے “سلیبریٹی” بننے کا شوق چڑھ گیا۔ انما الاعمال بالنیات کا اصول لاگو ہوا اور بن گئے سلیبریٹی۔ اب ان کا معاشرے میں وہی حال ہے جو سلیبریٹیز کا ہوتا ہے۔
ہم دیگر مکاتب فکر میں دخل نہیں دیتے۔ اسی لئے مثال اپنے مکتب فکر کی دی ہے۔ دیگر مکاتب فکر والے اپنے گھروں کا جائزہ خود لے لیں۔ صورتحال ان کے ہاں بھی یہی ملے گی۔
تھوڑا سمجھ لینا چاہئے کہ داعی کی ذمہ داریاں ہیں کیا؟ ایک بار یہ سمجھ آجائے تو پھر کام منظم انداز سے کیا جاسکتا ہے۔ ذمہ داری کا تعین داعی کے ذہن اور صلاحیتوں سے ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک داعی کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ اسلام کی دعوت غیر مسلموں تک پہنچانے کی محنت ہونی چاہئے۔ جو دعوت کی نسبت سے سب سے بڑا کاز ہے۔ عین پیغمبرانہ سنت ہے۔ چنانچہ اب وہ جائزہ لے گا کہ اس زمانے کے غیر مسلموں کی جو ذہنی سطح ہے اس تک وہ رسائی رکھتا بھی ہے یا نہیں؟ کیا وہ ان کے سوالات کے جوابات دے سکتا ہے؟ اگر اسے نظر آئے گا کہ ہاں اس عہد جدید کی ذہنی سطح اس کی رسائی میں ہے تو وہ اس میدان میں کام شروع کردے گا۔
کسی اور داعی کی فکرمندی یہ ہو سکتی ہے کہ بھئی دین لوگوں کی زندگی سے خارج ہوگیا ہے۔ سب رسمی سے مسلمان بن کر رہ گئے ہیں، لہٰذا مجھے یہ محنت کرنی ہے کہ لوگوں کا مزاج پھر سے دینی بنا دیا جائے۔ کسی تیسرے داعی کا ذہن یہ ہوسکتا ہے کہ ہمارے اندر ہی ایک طبقہ ایسا وجود میں آگیا ہے جو دین کا ذکر سنتے ہی بدک جاتا ہے اور سبب بھی فقط یہ کہ اسے لگتا ہے دینداری “ماڈرن” ہونے کی نفی ہے۔ اور اس نے تو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ بہوووووووووت ماڈرن ہے۔ چنانچہ یہ داعی سوچتا ہے کہ مجھے ان لوگوں کو دو باتیں سمجھانی ہیں۔ پہلی یہ کہ بھئی ذہنیت کے لحاظ سے تم میں اور مولوی میں کوئی فرق نہیں۔ ایجنڈا دونوں کا نفرت پھیلانا ہے۔ بس یہ ہے کہ مولوی تمہارے خلاف نفرت پھیلاتا ہے اور تم مولوی کے خلاف۔ نفرت کے اس فروغ میں وہ قرآن و حدیث سے دلیل لاتا ہے اور تم عقل سے۔ کوئی ایک لبرل کسی غیر اخلاقی سرگرمی میں پکڑا جائے تو مولوی کہتا ہے یہ سب ایسے ہیں۔ تم بھی لونڈے بازی کے کسی ایک واقعے کو پورے مذہبی طبقے کے خلاف استعمال کرتے ہو۔ جب ذہنیت دونوں کی ایک ہے تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم سکے کا چاند والا حصہ ہو یا چھاپ والا؟ اور دوسری بات یہ سمجھانی ہے کہ بھئی مذہب سائنسی ذہن سے زیادہ ماڈرن ہے۔ یہی دیکھ لیجئے کہ جس بگ بینگ تھیوری کا انکشاف سائنس نے لگ بھگ 90 سال قبل کیا، اسے قرآن اس سے 1300 سال قبل بیان کرچکا تھا۔ یہی صورتحال “حیات پانی سے ہے” والے تصور کی بھی ہے۔ تو زیادہ ماڈرن تو وہی ہوا ناں جس نے یہ ماڈرن انکشاف پہلے کئے۔
یہ تین ہوئے داعیوں کے میدان کار اور ترجیحات۔ ان ترجیحات سے جڑے تینوں داعیوں کے اہداف اہم ہیں۔ ان میں ہم ان کو شامل ہی نہیں سمجھتے جو مسلک کی بھیڑ جمع رکھنے والے مشن پر ہیں۔ اور جن کی جانب پہلے پیراگراف میں اشارہ گزرا۔ ان کے لغو ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ان میں سے ایک کی شامت آئی تو ہم اس پورے کیس سے لاتعلق رہے۔
مذہبی ذہن کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ مسلک کی بنیاد پر نفرت کرنا یا پھیلانا بہت آسان کام ہے، مثلا بریلوی سے نفرت کے لئے بس اتنی سی وجہ ہی درکار ہوگی ناں کہ وہ بریلوی ہے؟ اس سے زیادہ کوئی وجہ چاہئے؟ لیکن ہم کو مفتی منیب الرحمن اور مفتی اکمل صاحب اپنے دیوبندی بزرگوں کی طرح ہی عزیز ہیں۔ اگر آپ ہم سے وجہ پوچھیں تو ہمارا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں علماء انبیاءعلیھم السلام کی ایک بڑی اجتماعی سنت کا نمونہ ہیں۔ وہ سنت یہ ہے کہ نبی کبھی بھی درپیش صورتحال سے مطمئن نہیں ہوتا۔ معاشرہ جتنا بھی دیندار ہوجائے پیغمبر مطمئن نہ ہوں گے۔ وہ یہی فرمائیں گے کہ بھئی ابھی بہت کام کرنا ہے، بہتری کی بہت گنجائش ہے۔
ایک ایسا دور جس میں مسالک کا کلچر ہی یہ بن گیا ہے کہ بھئی سبحان اللہ دین کی بہاریں ہی بہاریں ہیں۔ اس دور میں مفتی منیب اور مفتی اکمل اپنے مکتب فکر کے مسلمانوں سے کہتے ہیں، بھئی کچھ خدا کا خوف کیجئے، آپ دین کو مسخ کر رہے ہیں۔ جسے آپ نے دینداری سمجھ رکھا ہے وہ فقط خرافات ہیں۔ نکلو ان خرافات سے۔ آپ بتائیے ایسے علماء سے محبت واجب نہیں؟
جان عزیز! اس ملک میں ایک بہت بڑے داعی کی آمد کا موقع ہے۔ داعی بھی وہ جو غیر مسلموں کو دین کی جانب لانے کے عظیم الشان ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ شیخ احمد دیدات جیسے لیجنڈ کا شاگرد ہے۔ کیا اس سے محبت کے لئے اتنی وجہ کافی نہیں کہ دعوت دین کی نسبت سے سنت انبیاء کا وارث ہے؟ ایک آدمی لاکھوں لوگوں تک کلمہ پہنچا رہا ہے اور ہم اس بکھیڑے میں پڑے ہیں کہ اس نے تو فلاں فلاں باتیں بھی کر رکھی ہیں۔ یہ فلاں فلاں باتیں تو مفتی منیب اور مفتی اکمل کی بھی بہت سی ہیں۔ کیا ہم اس جانب اشارہ تک کرتے ہیں؟ اپنی ذہنیت ٹھیک کیجئے۔ منفی ذہنیت رکھیں گے تو فلاں فلاں باتیں ہی نظر ائیں گی۔ مثبت سوچ رکھیں گے تو ترجیح خیر کے پہلو کو حاصل ہوگی۔ آپ تو اتنا بھی نہیں سوچ رہے کہ مذہبی بننا چھوڑیئے ہم تو انسان بھی ڈھنگ کے نہیں ہیں۔ اتنی سی تہذیب میسر نہیں کہ یہی سوچ کر چپ رہیں کہ بھئی ہمارے کلچر میں گھر آنے والے مہمان کا اکرام کیا جاتا ہے، اسے رسوا نہیں کیا جاتا۔