ہم مختلف مسائل پر بہت شور شرابہ کرتے ہیں، مگر یہ مسائل پیدا کیوں ہوئے؟ آج تک اس پر نہ کوئی کام اور نہ ہی کوئی تحقیق کرتے ہیں کیونکہ ہر جرم کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور جب تک یہ وجہ ختم نہیں ہوتی، صرف مجرم کا نام بدلتا ہے مگر جرم تبدیل نہیں ہوتا۔
جرائم کا یہ سلسلہ اس ملک سے کبھی ختم نہیں ہوتا۔ پاکستان کا مسئلہ یہی ہے کہ جو چیز میڈیا پر موضوعِ بحث بن جائے، اس جرم کو جرم سمجھا جاتا ہے اور ایسے مجرم کو سزا دلانے کیلئے ساری قوم ایک ہوجاتی ہے۔ یوں مجرم کو سزا بھی مل جاتی ہے ، مگر کچھ عرصے بعد دوبارہ ایک نیا مجرم پیدا ہوجاتا ہے۔
اس سلسلے کو روکنے کیلئے ہمیں جرم کی تہہ تک جانا ہوگا اور یہ جرم اور مجرم کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ اس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ آج کے بچے جرم کے پیچھے اس لیے جارہے ہیں کیونکہ تعلیمی اداروں میں صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر اپنے آپ کو منوانے کی تگ و دو جاری و ساری رہتی ہے۔
جو بچے کسی شعبے میں کمزور ہوتے ہیں، ان کے اساتذہ ان کو اور ان کے والدین کو بے تحاشہ ذلیل کرتے اور یہ احساس دلاتے ہیں کہ ان لوگوں نے کوئی بہت بڑا جرم کیا ہے۔ تعلیم نمبروں کا کھیل نہیں بلکہ علم کا وہ دروازہ ہے جس سے دنیا روشن کی جاسکتی ہے۔ آج اس نمبروں کے کھیل نے بچوں کو خودغرض اور سنگدل بنا دیا ہے۔
وہ ہر شعبے میں کامیاب تو ہورہے ہیں مگر یہ کامیابی انسانیت کا خون کرکے مل رہی ہے کیونکہ انسانیت کبھی ان بچوں کو پڑھائی نہیں گئی اور نہ ہی انسانیت کے اچھے کام کرنے پر ان کو کوئی انعام دیا گیا۔ پاکستان میں اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز میں سگریٹ نوشی اب کوئی بڑی چیز نہیں رہی بلکہ منشیات کے شکار بچے اکثر نظر آتے ہیں۔
یہ منشیات کس طرح سے اسکولز، کالجز یا نوجوانوں تک پہنچتی ہیں، اس پر کوئی غور نہیں کرتا۔ مگر منشیات کے نشے میں جب کوئی بچہ پکڑا جاتا ہے تو اس بچے کو وہ سزا دے رہے ہوتے ہیں جس سزا کا حقدار وہ شخص ہے جس نے اس بچے کو اس گندی عادت میں مبتلا کیا۔ سزا بھی قانون اور دنیا صرف اسی کو دیتی ہے جو شخص منشیات کا استعمال کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔ مگر منشیات فراہم کرنے والے ہمیشہ آزاد گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ہم منشیات کی کیا بات کریں؟ یہاں تو زہر بیچنے والے بھی کھلے عام لوگوں کو زہر بیچتے ہیں مگران کو پکڑنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس کی مثال کھانے پینے کے تیل ہیں جو دنیا بھر میں کینسر پیدا کرتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر اس کھانے پینے کے تیل کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو کینسر جیسی بیماری ہوجاتی ہے۔
مگر کوئی بھی ادارہ کھانے کے تیل کو نہ چیک کرتا ہے اور نہ ہی اس پر تحقیق کی جاتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو 90 فیصد ہوٹلز میں غیر معیاری تیل اور گھی استعمال ہوتا ہے، جس سے 100 فیصد کینسر کی بیماری ہونے کا خدشہ رہتا ہے، مگر کیا کسی کمشنر نے یا کسی اور ادارے نےناقص خوردنی تیل کی روک تھام کیلئے کوئی بندوبست کیا؟
رمضان کا مہینہ آنے والا ہے، اسی خراب تیل کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو کینسر کی بیماری ہوگی، مگر جب لوگ بیمار ہوں گے تو حکومت اور سیاسی لوگ کینسر کے ہسپتال بنائیں گے ، مگر کبھی بھی وجہ دریافت نہیں کریں گے کہ عوام کینسر کی بیماری میں کیوں مبتلا ہورہے ہیں؟ ہسپتال بنانے سے بہتر ہے کہ بیماریوں کو روکنے کا انتظام کیا جائے۔
یہ صرف کینسر کے مریض نہیں بلکہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے دل کے امراض بھی اس چیز کی گواہی دے رہے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیاء پر کوئی کوالٹی کنٹرول نہیں۔ افسوس، کہ چند پیسوں کے عوض وہ ذمہ دار لوگ جن کا فرض ہے کہ وہ اسے نہیں روکتے۔
ہم صرف اس زہریلے کاروبار کی بات نہیں کر رہے بلکہ آج ہم جن بڑھتے ہوئے حادثات کو دیکھ رہے ہیں، اور حکومت راتوں رات اس قانون کو نافذ کرنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے 10 فیصد حادثات ہوتے ہیں ۔ 90فیصد حادثات گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ ڈرائیور اور مالکان کے لالچ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
ہر ٹینکر والا چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ چکر لگا ئے تاکہ اسے ایک دن میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہوسکے۔ جلدی کے چکر میں ڈرائیور گاڑی خوب بھگاتا ہے اور مالک اسے خوب دباؤ میں رکھتا ہے کہ زیادہ چکر لگاؤ تاکہ ہم زیادہ پیسے کما سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی وجہ سے 90فیصد حادثات ہوتے ہیں چاہے اس میں ڈمپر، ٹینکر یا پھر منی بسز ملوث ہوں۔
تمام ڈرائیورز زیادہ سے زیادہ چکر لگانا چاہتے ہیں، مگر حکومت کبھی اس حقیقت پر غور نہیں کرتی اور عوام کو تسلیم دینے کیلئے فٹنس سرٹیفکیٹ پر زور دیتے ہوئے اس کی عدم موجودگی کو حادثات کی وجہ قرار دیتی ہے۔ کیا اداروں کو یہ علم نہیں کہ گاڑی سے زیادہ ڈرائیور کا فٹنس سرٹیفکیٹ ضروری ہے۔
جو ڈرائیور حضرات منشیات استعمال کرکے 18، 18 گھنٹے گاڑیاں چلاتے ہیں، وہ حادثات نہیں کریں گے تو پھر کیا کریں گے؟ اور ان غریب ڈرائیوروں کے پیچھے ان کے مالکان کا دباؤ ہمیشہ رہتا ہے۔ مالکان نے یونین بنا کر اپنی غنڈہ گردی شروع کررکھی ہے اور رشوتیں دی جاتی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی معصوم انسان ان ٹرانسپورٹرز کی گاڑیوں کے نیچے آ کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔
پاکستان کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک ہم ہر اس جرم کی وجہ نہ ڈھونڈ لیں جس کے باعث جرم کیا جاتا ہے۔ہر بیماری کے علاج سے قبل اس کی وجہ تلاش کرناضروری ہے کہ لوگ پاکستان میں بیمار کیوں ہورہے ہیں۔
اسی طرح معیشت کی بات کی جائے تو حکومت کبھی یہ نہیں سوچتی کہ معیشت کے اچھے اعدادوشمار کے باوجود عوام کیوں غربت میں مر رہے ہیں؟جب پاکستان بنا تھا تو پاکستان ایسا ملک بنا تھا جس میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ اس ملک میں ہر انسان انسانی حقوق کے مطابق اپنی زندگی گزارے گا۔
مگر آج ہم انسانی حقوق کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ہم صرف مالی ترقی کو ترقی سمجھتے ہیں اور انسانیت اب بہت کم نظر آتی ہے۔ جب ہماری حکومت اور ادارے انسانیت کے اوپر کام کریں گے تبھی وہ ہر اس گناہ اور ہر اس جرم کی وجہ تلاش کر یں گے اور جب آپ کو کسی بھی جرم یا گناہ کی وجہ پتہ چل جائے تو پھر جب یہ وجہ ختم ہوگی ، تبھی جرم ختم ہوگا۔
مگر پاکستان کینسر کے مریض کی طرح اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں پر کینسر ہونے کی وجہ کے بارے میں نہیں سوچا جاتا اور اسے یہ کہا جارہا ہوتا ہے کہ اب ہمارے اختیار میں کچھ نہیں ہے کیونکہ کینسر آخری اسٹیج پر پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کو اس آخری اسٹیج کے کینسر پر لانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ بغیر سوچے سمجھے ایسے قوانین بنائے جن کی وجہ سے مجرم تو مارا جاتا ہے ، مگر جرم کی شرح میں اضافے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
آج اگر حکومت چاہے تو کینسر ہسپتال بنانے کی بجائے تحقیقات کا آغاز کرے کہ پاکستانی عوام کو اتنی زیادہ تعداد میں کینسر اور دل کی بیماریاں کیوں ہورہی ہیں؟ اور پھر ان چیزوں کوروکے جن کی وجہ سے ہمارے ہاں بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
کورونا سے صرف 32 ہزار 700افراد ہلاک ہوئے مگر لاکھوں افراد غیر معیاری خوراک ، غیر معیاری تیل ، غیر معیاری مصالحوں اور دیگر غیر معیاری چیزوں کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں کہا جاتا ہے کہ سگریٹ، تمباکو نوشی، کینسر کی وجہ ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں، مگر پھر بھی اس زہر کی فروخت دنیا بھر میں ہورہی ہے اور سب سے زیادہ غریب ممالک میں اسے بیچا اور خریدا جاتا ہے۔
کیونکہ یہاں ایک چھوٹے سے بچے کو بھی سگریٹ آسانی سے دستیاب ہے۔ حکومت نے کبھی اس انڈسٹری کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ جس طرح گٹکا، ماوا اور دیگر زہریلی چیزیں روکی جاتی ہیں، اسی طرح ان تمام زہریلی چیزوں کی بنیاد سگریٹ نوشی ہے جو کہ وہ پہلا زہر ہے جو بچے شروع کرتے ہیں۔
خدارا اگر آج بھی ہم نے اس بارے میں نہیں سوچا تو کل کسی کا بھی بچہ کینسر یا دل کا مریض بن سکتا ہے، قاتل ہوسکتا ہے اور گناہوں کے اس دلدل میں گر سکتا ہے جہاں سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
آج کی دنیا میں اچھا ڈاکٹر، اچھی دوائی، اچھا ہسپتال، اچھا اسکول، اچھے استاد، اچھے والدین، آج کے دور میں اچھے اور ایماندار ادارے، ایماندار کام کرنے والے لوگ اور ایماندار کام کروانے والے لوگ نہیں ملتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بچپن کے ان دنوں کو کوئی نہیں بھولتا جہاں ان کو بتایا جاتا ہے کہ صرف دولت کمانے کو ہی کامیابی کہتے ہیں اور انسانیت اور مذہب کو دوسرے اور تیسرے نمبر پر سمجھا جاتا ہے جبکہ سب سے پہلے ہمارا مذہب ہے جو ہمیں انسانیت اور کامیابی کے صحیح راستے دکھاتا ہے مگر ہم یہ سب بھول بیٹھے ہیں۔
انسانیت کو دوبارہ پیدا کرنے کیلئے ہمیں تمام ان گناہوں کی اور جرائم کی وجہ تلاش کرکے انہیں ختم کرنا پڑے گا، ورنہ مجرم مرتے جائیں گے اور جرائم بڑھتے جائیں گے۔