کراچی:موسم سرما کے مکمل اختتام سے قبل ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی کی کمی کی شکایات آنے لگیں تو آنے والی سخت ترین گرمیوں میں کیا ہو گا شہری مشکلات سے کیسے چھٹکاراپائیں گے بدقسمتی سے واٹربورڈ کے پاس کوئی پلان ہی موجود نہیں۔
کراچی کے شہریوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجنے لگی، شہر کا سب سے بڑا مسئلہ پھرسر اٹھانے کو تیار ہے تو کراچی کے لیے موسم گرما بھی بڑی آزمائش بننے کو ہے۔ مسئلہ ہے تو پرانا لیکن حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔
ہردن بڑھتے ہوئے کراچی کو یومیہ پانی کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے اور ایسے میں کے فورسمیت فراہمی آب کے کسی اوراضافی ذریعہ کا شہر قائد کے لیے دورتک امکان نہیں۔حالیہ مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ سے زائد ہے۔
گزشتہ 19 برسوں سے شہر کی آبادی میں سالانہ اوسطا 2.4 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، شہر کیلئے درکار پانی کی طلب دن بدن بڑھ رہی ہے لیکن اس کے باوجود گزشتہ پندرہ سال سے شہرمیں پانی کی فراہمی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
اسی لیے اب شہر کو اس کی ضرورت سے 56 فیصد پانی کم فراہم کیا جارہا ہے۔ کراچی کا تقریبا ہر دوسرا شہری پانی کے حصول کے لیے اپنا سکون،قت اور پیسہ تینوں ہی صرف کر رہا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ پانی سرکاری پمپ سے حاصل کرتے ہیں لیکن اکثر اوقات یہ پانی گندا،بدبو دار اور پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں پینے کیلئے مہنگے پانی پر ماہانہ آمدنی کا اچھا خاصا حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔
کراچی کو اس وقت دو مختلف ذرائع سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ ایک دریائے سندھ اور دوسرا حب ڈیم سے، اور وہ دونوں ہی شہر سے کم و بیش 150 کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ شہر میں پانی کی روزانہ ضروریات کا تخمینہ 1100 سے 1200 ملین گیلن ہے۔
لیکن ان دونوں ذرائع سے مجموعی طور پر کراچی کو550 سے 580 ملین گیلن کے لگ بھگ یومیہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔فراہمی کے بوسیدہ نظام کی وجہ سے 174 ملین گیلن پانی ضائع ہو جاتا ہے اور بمشکل 406 ملین گیلن پانی ہی شہریوں کو میسر آتا ہے جو کہ شہرکی ضرورت کا محض 44 فیصد ہے۔
کراچی کو اضافی پانی کی فراہمی کا منصوبہ “کے فور” زیر تکمیل ہے۔جس کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں 260 ملین گیلن کے بعد تیسرے مرحلے میں 130ملین گیلن پانی فراہم کیا جانا ہے لیکن یہ منصوبہ کم از کم 15 سال سے تاخیر کا شکار چلا آ رہا ہے۔
اس پر لاگت کا تخمینہ بھی 25 ارب روپے سے بڑھ کر 100 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔کراچی ٹرانسفارمیشن پیکج میں شامل کیے جانے کے بعد یہ منصوبہ اب واپڈا کے حوالے کیا گیا ہے اور ادارے کی ابتدائی ٹائم لائن کے مطابق اگلے تین سال تک اس منصوبے سے پانی ملنا ناممکن ہے۔
اپنی ضروریات کے لیے زیرزمین نقصان دہ پانی کا استعمال کرنے پر مجبور کراچی کے شہری مضطرب ہیں کیونکہ شہرکے اکثر علاقوں میں پائپ لائنز کے ذریعے تو پانی نہیں ملتا مگر غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے ذریعیمہنگے داموں پانی کی فراہمی ایک معمول ہے۔