سیلابوں اور بارشوں کی حالیہ آفت اور اس کے نتیجے میں افسوسناک واقعات نے ثابت کیا ہے کہ پانی کی کمی ہو یا فراوانی، دونوں صورتیں پاکستان کے لیے تباہی کا باعث بن سکتی ہیں۔ پاکستان میں پانی کی تقسیم اور آبی وسائل کا تنازع طویل تاریخ رکھتا ہے اور یہ پاکستان کے چند دیرینہ مسائل میں سے ایک ہے۔ 2022 کے آغاز میں بھی حسب روایت وفاق کی اکائیوں کے درمیان اس مسئلے پر تنازع نے سر اٹھایا۔ سندھ کو ہمیشہ شکایت رہتی ہے کہ اسے قومی آبی وسائل میں سے اس کا جائز حصہ نہیں مل رہا، اس بار بھی سال کی ابتدا میں سندھ نے یہ معاملہ شد و مد سے اٹھایا، مگر اس مسئلے پر ابھی بیان بازی جاری تھی کہ مون سون نے وہ قیامت ڈھا دی کہ اب کسی کو بھی آبی وسائل کی تقسیم میں نا انصافی کی شکایت کرنے کی فرصت ہی نہیں رہی ہے۔ ساتھ ہی اس تباہ کن سیلاب نے موسمیاتی تبدیلی کے آئندہ خطرات کی پیش بندی اور پانی کے بہاؤ کو مناسب طریقے سے منظم کرنے کی ضرورت کو اچھی طرح واضح کیا ہے۔
یہ ایک اچھی خبر ہے کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) جو صوبوں کے درمیان پانی کے ذرائع و وسائل کی تقسیم کو ریگولیٹ کرنے اور اس کی نگرانی کا ذمہ دار ادارہ ہے، نے صوبوں کے درمیان پانی کے حصص، پانی کی دستیابی کی پیشین گوئی اور موجودہ آبی نظام کی خامیوں کا تعین کرنے کے لیے ایک خودکار طریقہ کار وضع کر لیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس طریق کار پر آنے والے ربیع سیزن میں عمل در آمد ہوگا اور موجودہ فرسودہ مینوئل سسٹم خودکار سسٹم میں تبدیل ہو جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک سافٹ ویئر ہوگا، جو واٹر ریگولیٹر کا کردار ادا کرے گا اور واپڈا اور دیگر آبی اتھارٹیز کی موسمی پانی کی منصوبہ بندی کے حوالے سے رہنمائی کرے گا، جس سے یہ امید بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں پانی کے جھگڑے کا مناسب حل آسان ہوگا۔
پانی کی تقسیم کی ڈیجیٹلائزیشن یقینی طور پر ایک اہم پیشرفت ہے، اسے اچھی طرح منظم کرکے مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ضروری اور ذمے دارانہ قدم ہے۔ پاکستان میں پانی کے بحران کو کم اہم نہیں سمجھنا چاہیے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان پانی کی کمی کے حوالے سے دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ متاثر ملک ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم طویل عرصے سے ایک ما بہ النزاع امر چلا آ رہا ہے۔
پانی کے جھگڑے کو پانی کی تقسیم کے طریقہ کار میں زیادہ شفافیت لا کر حل کیا جا سکتا ہے، اس حوالے سے خود کار سسٹم سے ہم بجا طور پر بہت سی اچھی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈیجٹلائزیشن اور مینول سسٹم سے خود کار سسٹم میں شفٹ ہونے سے صوبوں کے درمیان آبی تنازعات میں کمی آئے گی اور اس سے صوبوں کے درمیان نفرتیں اور ایک دوسرے کے بارے میں بد گمانیاں بھی ختم ہوں گی، یوں یہ خود کار سسٹم وفاق کی مضبوطی اور وفاقی اکائیوں میں یکجہتی کو بڑھاوا دینے کا بھی باعث بنے گا۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس نظام کو متفقہ طور پر اپنایا جائے گا اور اس سلسلے میں کسی تنازع اور غیر ضروری اختلاف کو پنپنے کا موقع نہین دیا جائے گا۔