دیر آئد درست آئد

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کنسٹرکشن کا شعبہ کسی بھی ملک کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، ملک میں کوئی بھی مشکل وقت ہو، کوئی بحران کی کیفیت ہو یا حکومت کو معاشی مسائل سے نکالنا ہو یا عوام کو امدادی کی فراہمی کنسٹرکشن کا شعبہ ہر وقت اور ہر جگہ خدمات کیلئے پیش پیش ہوتا ہے۔

کنسٹرکشن کا شعبہ 72 انڈسٹریوں کی ماں کہلاتا ہے ، کنسٹرشن انڈسٹری چلتی ہے تو 72 صنعتوں کا پہیہ چلتا ہے، تعمیراتی سرگرمیوں سے کنسٹرکشن سے براہ راست وابستہ 72 صنعتوں کے فروغ کے علاوہ ہزاروں افراد کو روزگار بھی ملتا ہے۔

قیام پاکستان سے آج تک کنسٹرکشن انڈسٹری نے ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن 73 سال بعد بھی تعمیراتی شعبہ حقیقی توجہ سے محرومی کے باعث مسائل سے دوچار ہے تاہم وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے کنسٹرکشن کے شعبے کو صنعت کا درجہ دینے کے اعلان نے بلڈرز اور ڈیولپرز کے دل جیت لئے ہیں۔

کنسٹرکشن انڈسٹری کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کا تعمیرات سے وابستہ سرمایہ کار 70 فیصد تعمیرات عوام جبکہ صرف 30 فیصد تعمیرات مانگ کے مطابق کی جاتی ہیں لیکن گزشتہ سات سال میں کنسٹرکشن انڈسٹری کو لامحدود مسائل سے گزرنا پڑا جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں سے زیادہ خود حکومت کو نقصان ہوا۔

کنسٹرکشن انڈسٹری کئی سال سے حکومت اور ٹیکس وصولی پر مامور اداروں سے ایف ٹی آر یعنی فکس ٹیکس رجیم کیلئے درخواست کررہی ہے، ایف ٹی آر کا مقصد ٹیکس چوری کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد محض یہ ہے کہ ایف بی آر اور دیگر متعلقہ اداروں کی بے جا مداخلت کو روکنا ہے کیونکہ فکس ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے اداروں کے افسران کو کرپشن کیلئے حوصلہ ملتا ہے جس سے سرمایہ کارمارکیٹ میں پیسہ لگانے سے کتراتے ہیں اگر ایف ٹی آر نافذ ہوتا ہے تو تعمیراتی سرگرمیاں تیز ہونگی جس سے حکومت کو فائدہ ہوگا۔

5 سال میں ٹیکس ریٹ ساڑھے 6 فیصد سے بڑھانے کی پیشکش کرچکے ہیں اور یہ پرپوزل آج بھی ایف بی آر، وفاقی وزیر برائے ریونیو حماد اظہر ، وزیراعظم پاکستان عمران خان اور صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی میز پر موجود ہے اگر حکومت تعمیراتی شعبے کا پروپوزل قبول کرلیتی ہے تو یہ ملک میں تعمیراتی صنعت کی ترقی کیلئے بڑا اقدام ہوگا جس سے معیشت کو بھی فائدہ ہوگا۔

صنعت کا درجہ ملنے سے پہلے ایف بی آر نے بلڈزر کو ود ہولڈنگ ٹیکس کے گورکھ دھندے میں الجھا کر بدظن کردیا تھا، ایف بی آر نے سیمنٹ اور اسٹیل پر ودہولڈنگ کی ٹیکس لینے کی ذمہ داری دیکر کنسٹرکشن سیکٹر کو اصل کام سے روک رکھا تھا جس کی وجہ سے بلڈرز ٹیکس ایجنٹ بن کر رہ گئے تھے ۔ وزیراعظم عمران خان نے کنسٹرکشن سیکٹرکو اس جھنجھٹ سے رہائی دلا کر ایک مستحسن کام کیا ہے ۔

پاکستان کی بڑی آبادی گھروں سے محروم ہے لیکن کنسٹرکشن سیکٹر تو عوام کو سستے گھروں کی فراہمی کیلئے اپنی خدمات انجام دینے کو تیار رہتا ہے تاہم بینک عوام کو قرض نہیں دیتے تھے لیکن اب صنعت کا درجہ ملنے کے بعد سب سے زیادہ فائدہ عوام کو ہوگا۔ بلڈرز دنیا کے کسی بھی ملک میں جاکر کام کرسکتے ہیں لیکن اپنے ملک وقوم کی خدمت کرنیوالے شعبہ کو متنازعہ بنانے والے حقیقت سے ناآشناہیں۔

وزیراعظم کی جانب سے تعمیراتی سیکٹر میں سرمایہ کاری کی پیشکش کوئی نئی بات نہیں ہے، پوری دنیا میں اس طرح کی اسکیمز معمول کی بات ہے، پاکستان میں کالا دھن سفید دھن سے3گنا زیادہ ہے ، بلڈرز اپنی زمینیں قانونی طور پر فروخت کرکے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرسکتے ہیں لیکن یہ پاکستان کا ہی پیسہ ہے اور اگر یہ پیسہ واپس پاکستان میں ہی لگتا ہے تو اس میں پاکستان کا ہی فائدہ ہے، صرف تنقید برائے تنقید یا مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر کسی فیصلے کو پرکھنا مناسب طرز عمل نہیں ہے۔

اگر یہ کالا دھن ملک سے باہر چلا جائے یا لوگوں کی تجوریوں میں پڑا رہے گا تو کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن اگر یہ پیسہ مختلف منصوبوں میں لگایا جائے گا تو اس سے معیشت کو فائدہ ہوگا کیونکہ 72 انڈسٹریاں  چلیں گی اور ہزاروں لوگوں کو روزگار ملے گا تو صرف سرمایہ کار کو نہیں بلکہ ہزاروں لوگ مستفید ہونگے،حکومت کی جانب سے کمرشل بینکوں سے حاصل کردہ قرض پر سبسڈی سے بھی سرمایہ کاروں کو نہیں بلکہ عوام کو فائدہ ہوگا اور ان کو سستے گھروں کا خواب پورا ہوگا۔

پاکستان میں دوہفتوں سے جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی حالات ابتری کی طرف جارہے ہیں، اگر حکومت تعمیراتی شعبہ کو بحال کرتی ہے تو اس سے عوام کو روزگار ملے گا کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کے گھروں میں فاقے ہورہے ہیں اس لئے اگر صورتحال برقرار رہی تو امن وامان کا مسئلہ بن سکتا ہے جو کورونا سے زیادہ مہلک ثابت ہوگا،۔

کالے دھن کی اصطلاح استعمال کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ صرف کنسٹرکشن میں ہی غیر قانونی سرمایہ موجود ہے بلکہ پاکستان میں نظام کی کمزوری کی وجہ سے ملک تقریباً ہر کاروبار میں کالا دھن ہے، ایک دکان سے لیکر فیکٹری تک ہر جگہ کالا دھن موجود ہے کیونکہ ٹیکس چوری کرکے بچائے جانیوالے پیسے کو کالا دھن کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا صدر بھی انتہائی کم ٹیکس دیکر اپنی رقم بچالیتا ہے ، یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے لیکن پاکستان کے بلڈرز اور ڈیولپرز حکومت کے شانہ بشانہ ملک کی ترقی کیلئے اپنی خدمات پیش کرنے کیلئے تیار ہیں ، حکومت کی جانب سے مراعات کا اعلان ایک مثبت پیشرفت ہے تاہم حکومت کی جانب سے عارضی ریلیف تو خوش آئند ہے لیکن حکومت کو دور رس نتائج حاصل کرنے کیلئے تعمیراتی صنعت کو مستقل پالیسی دینا ہوگی۔

عبدالکریم آڈھیا

Related Posts