ویکسین کے ٹرائل کیلئے پوری قوم کا سودا ؟؟؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں کورونا کی وباء ایک بار پھر قابو سے باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور حکومت نے عوام کو کورونا سے بچانے کیلئے ویکسی نیشن کا عمل تیز کردیا ہے اور یومیہ بنیادوں پر بیرون ممالک سے ویکسین آرہی ہے۔

پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ کورونا نے حکومت کو عجیب شش و پنج میں ڈال رکھا ہے، کبھی حکومت وباء پر قابو پانے کے دعوے کرتی ہے تو کبھی حالات بگڑنے کی دہائیاں دیتی نظر آتی ہے اور اس تمام تر صورتحال میں ویکسین ہی بچاؤ کا واحد راستہ ہے۔

پاکستان میں لوگ شروع سے کورونا کا وجود تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور حکومت کی عجیب و غریب پالیسیاں شبہات کو مزید تقویت دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر کاروبار کھولیں لیکن اوقات کم کردیں۔ مطلب جہاں رش نہیں ہونا وہاں بھیڑ لگ جائے کیونکہ جب کاروبار کے اوقات کم ہونگے تو بلاشبہ مارکیٹوں میں رش بڑھے گا۔قوم آج تک سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایسی شاندار پالیسیاں بنانے والے نایاب اذہان کہاں پائے جاتے ہیں۔

پاکستان میں کورونا ویکسین کیلئے اب حکومت نے مختلف پابندیوں کا اعلان کردیا ہے لیکن یہاں چند سوالات ہم جیسے کوڑھ دماغوں میں خلل پیدا کررہے ہیں کہ وہ دنیا جو کورونا سے بے حال تھی اچانک کیسے بحالی کی طرف لوٹ آئی تو اسکا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ انہوں نے ویکسین لگوائی لیکن۔۔۔۔ یہاں ایک سوال اور ہے کہ اربوں ڈالر کمانے کے لالچ میں ویکسین تیار کرنیوالی ادویات ساز کمپنیاں پاکستان جیسے غریب اور مفلس ملک پر کیسے اتنی مہربان ہوگئیں کہ دھڑا دھڑ ویکسین کے جہاز بھر بھر کے بھجوانے لگیں تو اس کا جواب بھی سامنے آچکا ہے۔

گزشتہ دنوں قومی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناب میجر جنرل عامر اکرام صاحب نے ببانگ دہل فرمایا کہ پاکستان نے محض ایک ویکسین جس کا انہوں نے نام کین سائنوبتایا کہ اس کے کلینکل ٹرائل سے ایک کروڑ ڈالر کمائے۔ لیجئے جناب۔۔۔ ویکسین لگانے کیلئے پھرتیوں کا معمہ کچھ حد تک تو حل ہوا۔

تو قصہ یوں ہے جناب کہ کسی بھی دوا کا فارمولا جب تیاری کے مراحل میں ہوتا ہے تو اس کی جانچ کیلئے تیار دوا پہلے مختلف جانوروں پر آزمائی جاتی ہے پھر ان جانوروں پر اس دوا کے مثبت اور منفی اثرات اور دیگر عوامل کی جانچ کی جاتی ہے لیکن کورونا نے چونکہ پوری دنیا کا نظام منجمد کردیا تھا اس لیئے اس کی ویکسین کی تیز جانچ اور فوری نتائج کا پتا لگانے کیلئے انسانوں پر جانچ شروع کردی گئی اور وہ انسان کسی مہذب ملک کے نہیں بلکہ پاکستان کے عوام ہیں۔

سندھ اور وفاق کے درمیان کورونا کے دوران بھی رسہ کشی چلتی رہی ہے۔ کبھی سندھ حکومت اپنی پالیسیوں کا ڈھول پیٹتی رہی تو کبھی وفاق اپنے خیالی منصوبوں سے دل بہلاتا رہا۔ سندھ کے انیل کپور مراد علی شاہ کی دوسال سے ضد ہے کہ سندھ کے عوام بھلے بھوک سے مریں، چاہے کتاکاٹنے سے جان دیدیں یا گندا پانی پی کر مرجائیں میں ان کو کورونا سے نہیں مرنے دونگا اور وفاق کے ارسطو اسد عمر بھی صبح سندھ کے اقدامات پر تنقید کرتے ہیں اور شام کو پورے ملک میں پابندیاں لگادیتے ہیں۔ اچانک پاکستان میں وفاق و صوبوں کے درمیان مفاہمت ایسے ہی ہے کہ جیسے ساس اور بہو اگر کبھی ساتھ خوشی سے بیٹھی دکھائی دیں تو مرد مزید پریشان ہوجاتے ہیں کہ شاید اب کوئی بڑا دھماکہ ہونیوالا ہے اوراب ویکسین کے معاملے پر سندھ اور وفاق ایک پیج پر ہیں تو ساس بہو کوساتھ بیٹھا دیکھ کر پریشان ہونا واجب ہے۔ساس بہووفاق اورسندھ یونہی نہیں مل بیٹھے  بلکہ اس کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چلو رادھا جو کمائیں گے آدھا آدھا۔

پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی کبھی بھی کمائی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے،کشمیر کا زلزلہ ہو یا سعودیہ کے زکوٰۃ کے چاول، ہم کبھی بھی بھیک کا کٹورا خالی نہیں رہنے دیتے۔بقول ڈائریکٹر صحت کے ایک کمپنی سے ایک کروڑ ڈالر کمائے تو جہاز بھر بھر کے آنیوالی ویکسین کے ٹرائلز کیلئے کتنے ڈالرز کمائے ہونگے ؟

یہ کام دنیا کے کسی اور ملک میں شائد ممکن نہ ہوتا لیکن پاکستان میں کبھی بھی کچھ بھی ممکن ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے پیسوں کیلئے پوری قوم کو ہی کلینکل ٹرائل کے نام پر چوہوں بلیوں اور دیگر جانوروں کی طرح بیچ دیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی عوام کی حیثیت لیبارٹری کے چوہوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔پاکستان میں ویکسین کیلئے حکومت اتنی پریشان ہے کہ ویکسین نہ لگوانے والوں کو مختلف پابندیوں سے ڈرایا جارہا ہے کیونکہ پاکستانی عوام تجربہ گاہ بن چکے ہیں جن پر ویکسین کی آزمائش کرنا مقصود ہے۔

ویکسین کے آغاز میں لوگوں نے جسم میں الرجی اور طرح طرح کی شکایات کیں لیکن حقیقت سے انجان ہم جیسے بیوقوف ان لوگوں کا مذاق اڑاتے رہے لیکن درحقیقت کلینکل ٹرائل کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس کے اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔

اب پوری قوم کو ویکسی نیشن کیلئے مجبور کیا جارہا ہے کیونکہ جو لوگ پیسے دیتے ہیں وہ رزلٹ بھی مانگتے ہیں کہ آیا وہ دوا لوگوں پر آزمائی بھی گئی ہے یا نہیں۔یہاں مقصد کسی کو ویکسین لگوانے سے روکنا نہیں بلکہ میں نے خود بھی ویکسین لگوائی ہے، سوال یہ ہے کہ حکومت ہم حقیروں کو کوئی تصدیق شدہ ویکسین بھی لگائے گی یا کہ پوری قوم کلینکل ٹرائل سے پیسہ کمانے کے کام آئیگی۔

حکومت کو عوام کے اذہان میں پائے جانیوالے فتور کو ختم کرنے کیلئے اپنے ارکان کو سامنے لاناچاہیے تاکہ قوم کو اطمینان ہوسکے،ویکسین لگانا شرط ہے تو سب سے پہلے ارکان اسمبلی اور اداروں کے افسران و عملے کو لگائی جائے اور ارکان اسمبلی عوام کو مطمئن کرنے کیلئے ویکسین کیمرے کے سامنے لگوائیں اور ویکسین کا نام بھی بتائیں تاکہ عوام کے کوڑھ دماغوں سے ویکسین کے حوالے سے خناس نکل سکے وگرنہ قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوگی کہ شائد ویکسین ٹرائل کے نام پر پوری قوم کا سودا ہوگیا ہے کیونکہ جہاں تک حکمرانوں کا تعلق ہے تو حکمران عوام کے سگے کب سے ہوگئے کہ انسانی جانیں بچانے کیلئے لوگوں کو ویکسین لگوانے پر مجبور کیا جائے۔

Related Posts