اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے زور دے کر کہا ہے کہ امریکہ کو جلد یا بدیر افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ امریکا افغانستان کے منجمد اکاؤنٹس کو بحال کرے۔
ترک نشریاتی ادارے کو دیے گئے وسیع انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کابل میں طالبان کی حکومت آنے سے پاکستان کو زیادہ فرق نہیں پڑا ہے۔
وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ اگر تمام پڑوسی ممالک مل جائیں تو افغانستان میں افراتفری ختم ہو سکتی ہے۔ اکیلے پاکستان کے تسلیم کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ فرق اس وقت پڑے گا جب امریکہ ، یورپ ، روس اور چین جیسے ممالک طالبان حکومت کو تسلیم کریں گے۔ تاہم بڑا فرق اس وقت پڑے گا جب امریکا طالبان حکومت کو تسلیم کرے گا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ امریکی میڈیا اور امریکی سینیٹ صدمہ اور الجھن کا شکار ہیں کہ طالبان نے دوبارہ اتنی جلدی اقتدار میں کیسے آ گئے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا اگر امریکا نے افغان حکومت کے منجمد اکاؤنٹس بحال نہ کیے تو ملک میں افراتفری پھیل سکتی ہے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کو ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اگلے سال تک 95 فیصد سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔
افغانستان سے سوویت افواج کے انخلا کے بعد کی صورتحال کا موازنہ کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس بار یہ “اقتدار کی منتقلی پرامن” تھی جو بہت غیر متوقع تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاہم اب مسئلہ انسانی بحران کا ہے کیونکہ افغان حکومت غیر ملکی امداد کی منتظر ہے۔
انہوں نے کہا جب تک افغان حکومت کی قلیل مدتی اور طویل مدتی مدد نہیں کی جائے گی افراتفری اور انسانی بحران کا شدید خطرہ رہے گا۔
جامع افغان حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ “جب ہم ایک جامع حکومت بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب قومی حکومت ہے۔ جب قومی حکومت تشکیل دی جائے تو سارے گروہ اس میں شامل ہوں گے۔ طالبان کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ افغانستان ایک کثیر نسلی ملک ہے۔”
انہوں نے کہا کہ دنیا طالبان کو اس بات کا حکم نہیں دے سکتی کہ کس کو حکومت میں شامل کرنا ہے اور کس کو نہیں۔ کوئی ان کے اندرونی معاملات مداخلت نہ کرے۔ کیونکہ یہ ڈکٹیشن کے مترادف ہوگا۔
عمران نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان کو افغانستان میں ناکامیوں کے لیے قربانی کا بکرا نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے افغان جنگ کے تناظر میں 80 افراد کی جانیں گنوادیں ہیں ۔ لیکن ان قربانیوں کی تعریف کرنے کے بجائے پاکستان کو افغانستان میں ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔
پاک امریکہ تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن مسلسل ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ، انہوں نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن بہت دباؤ میں تھے کیونکہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد ان پر بہت تنقید کی جارہی تھی۔
وزیراعظم عمران خان نے اس بات زور دیا افغانستان میں افراتفری پر قابو نہ پایا تو 90 کی دہائی جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے۔ اور اگر ایسا ہوا تو بین الاقوامی دہشتگرد تنظیمیں دوبارہ محفوظ ٹھکانے بنا لیں گی۔
یہ بھی پڑھیں : پی ٹی آئی کی حکومت اچھے اور برے طالبان کے فرق سے واقف ہے، شیخ رشید احمد