امریکا نے افغانستان میں اپنی 20 سالہ طویل موجودگی ختم کر دی ہے، آخری امریکی اہلکاربھی ایک فوجی طیارے میں ملک چھوڑ کر گیا ہے جس کے بعد واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کی جنگ باقاعدہ اختتام کو پہنچ گئی ہے۔
امریکا کے افغانستا ن کے نکلنے کے بعدپورے کابل میں جشن کا سماں تھاجب کہ طالبان نے ہوائی اڈے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ہوائی فائرنگ کرکے اپنے انداز میں جشن منایا۔
بڑے پیمانے پر انخلاسے قبل امریکانے طویل ترین جنگ میں 2500 امریکی فوجیوں اور ایک اندازے کے مطابق 240000 افغانوں کی جانیں لیں جبکہ اس جنگ میں اخراجات کی لاگت 2 ٹریلین ڈالر تھی تاہم دنیا اب دیکھ رہی ہے کہ طالبان آنے والے مہینوں میں اعتدال پسند اور جامع حکومت بنانے جارہے ہیں۔
طالبان کی انتقامی کارروائیوں کے خوف سے ہزاروں افغان پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں لیکن لاکھوں پیچھے رہ گئے ہیں۔ امریکا نے افغانستان میں اپنی سفارتی موجودگی بھی ختم کر دی ہے اور اب وہ قطر سے کام کرے گا۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے انخلاء کی آخری تاریخ پر قائم رہنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان کو افغانستان سے نکلنے کے خواہشمندوں کو محفوظ راستے کی اجازت دینی چاہیے۔
افغانستان میں اگلا قدم نئی حکومت کی تشکیل ہوگا۔ یہ ضروری ہے کہ دنیا امن اور استحکام کی خاطر افغانستان کے ساتھ مصروف رہے۔ ڈبلیو ایچ او نے طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے ایک ایئر برج کھول دیا ہے جو جلد ختم ہو سکتا ہےاور ایسا لگتا ہے کہ ملک اب انسانی بحران کے دہانے پر ہے اور آنے والے مہینوں میں خوراک کی دائمی قلت کا شکار ہو سکتا ہے۔
افغان بحران نے مغربی جمہوریتوں کی بیرون ملک پائیدار ادارے بنانے کی صلاحیت اور اس کے لیے ان کی آمادگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
افغانستان میں تنازعہ ختم نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ طالبان اور داعش سمیت حریف گروہ آپس میں ٹکرا سکتے ہیں۔ ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد عناصر طالبان کی یقین دہانی کے باوجود افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
پاکستان اور پڑوسی ممالک کا افغان بحران میں پہلے سے زیادہ کردار ہے۔ پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی عارضی طور پر میزبانی کرنے پر اتفاق کیا ہے اور یہاں تک کہ امریکی فوجیوں کو ٹرانزٹ کی اجازت دی ہے جس کی وجہ سے جلد ہی بڑے پیمانے پر خروج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور انکار کے باوجود پاکستان کو پناہ دینے پر مجبور کیا جائے گا۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری افغانوں کو ترک نہ کرےاورافغانوں کی فوری ضروریات کو پورا کیا جائے۔