امریکا کی جو بائیڈن حکومت اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے میانمار کے مسلمانوں پر مظالم کو نسل کشی قرار دئیے جانے کے بعد میانمار فوج پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ برس بغاوت کے بعد عسکری حکومت نے مظاہروں پر خونریز کریک ڈاؤن کیا جسے ایک سال مکمل ہوچکا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی حکومت نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کو نسل کشی قرار دیا تھا۔
امریکی انڈر سیکریٹری برائے ٹریژری برائن نیلسن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ میانمار کی فوج ظلم و جبر کو اپنا وطیرہ بنا چکی۔ ہم ان لوگوں کے احتساب کیلئے پر عزم ہیں جو تشدد اور جبر میں ملوث ہیں۔امریکا نے 2 فوجی کمانڈرز پر پابندی عائد کردی۔
لڑکیوں کے اسکول بند کرنے کا حکم، امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات منسوخ
جو بائیڈن حکومت کی جانب سے میانمار سے تعلق رکھنے والے 3 کاروباری افراد، چار کمپنیوں اور ایک انفنٹری ڈویژن پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ برطانیہ نے فضائیہ کے نئے سربراہ اور ایک تاجر کے ساتھ ساتھ میانمار کی کمپنی پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔
برطانوی وزیرِ ایشیا امانڈا ملنگ کا کہنا ہے میانمار فوج جمہوریت کے خلاف تشدد کی وحشیانہ مہم روکنے پر تیار نظر نہیں آتی۔ ہم پابندیوں کے ذریعے ان لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو فوج کو ہتھیار فراہم کرتے ہیں جس سے ملک بھر میں ظلم و ستم کو فروغ ملتا ہے۔