کورونا وائرس کے باعث پوری دنیا کے معاشی، سیاسی اور مذہبی معاملات حل ہونے کے بجائے طول پکڑ گئے ہیں۔اقوام متحدہ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور کہا ہے کہ کورونا وائرس کا بحران دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بدترین بحران ہے۔ دنیا نے اپنی تاریخ کی بدترین معاشی گراوٹ دیکھی ہے۔ترقی یافتہ ممالک بھی کورونا وائرس کے وبائی مرض سے نمٹنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں ہونے والے اہم معاملات میں سب سے اہم ایشو رمضان المبارک کاہے۔ یہاں تک کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس سلسلے میں بیان دے چکے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کی بھر کی اسلامی اقوام، رمضان کی تیاریوں کے ساتھ کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے اقدامات کررہی ہیں۔
گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستان میں نمازوں کے اجتماع پر پابندی کے باعث بڑے تنازعات رونما ہوئے۔ پولیس اہلکاروں پر حملے کے دو واقعات شہر کراچی میں سامنے آئے۔ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آنے والے افراد نے ایک خاتون ایس ایچ او پر حملہ کیا اور پھر ان افراد نے اپنے آپ کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عاشق اور مسلمان کہا۔
دنیا بھر کے مذہبی رہنماء اور مفتیان گھروں پر نماز پڑھنے کی تاکید کر رہے ہیں، تاہم پاکستان کے کچھ نامور علمائے کرام مساجد میں نماز پڑھنے کی اپنے پیروکاروں کو تلقین کررہے ہیں۔ہمیشہ سے یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں علمائے کرام اس طرح کے تنازعات میں ملوث رہتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ علمائے کرام حکومت کو اجتماعی نماز ادا کرنے پر قائل کررہے ہیں۔
اس سلسلے میں صدر ڈاکٹر عارف علوی نے علمائے کرام کی مشاورت سے ایک 20 نکاتی حکمت عملی تیار کی ہے اور رمضان کے دوران اجتماعی دعائیں اور تراویح کی اجازت دی ہے۔ تاہم حکمت عملی کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر انفیکشن میں اضافہ ہوتا ہے تو حکومت پالیسی کا جائزہ لے سکتی ہے اور اسے تبدیل کر سکتی ہے۔ مزید یہ کہ وزیر اعظم نے بھی اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ مئی میں انفیکشن میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ علمائے کرام کو لاپرواہی برتنے کے بجائے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دوسری مسلمان ریاستیں بھی کورونا وائرس کی صورتحال کے درمیان کیا کر رہی ہیں۔ آئیے سعودی عرب کی سب سے بڑی مثال لے لیں۔ سعودیہ کے مفتی اعظم نے اپنے لوگوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ گھر میں تراویح اور عید الفطر کی نماز پڑھیں۔ دوسری جانب ایران کی اعلیٰ قیادت نے بھی کہا ہے کہ رمضان میں بڑے اجتماعات نہ کئے جائیں۔
اگر دوسری ریاستیں ایسے فیصلے لے سکتی ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟ پاکستانی علمائے کرام ہمیشہ ملک کے مشکل حالات میں کیوں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں؟ رمضان کے دوران اجتماعی نماز ادا کرنے سے کورونا وائرس کے انفیکشن میں اضافے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔لہٰذا کورونا وائرس سے بچنے کے لئے سخت فیصلے کرنے کی سخت ضرورت ہے۔