ترکی نے اپنا نام بدل دیا، آخر کیوں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ترکی نے اپنا نام بدل دیا، آخر کیوں؟
ترکی نے اپنا نام بدل دیا، آخر کیوں؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دنیا میں آج کل ہر طرف تبدیلی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، ہر شے تبدیل ہو رہی ہے، ہر انسان خود کو بدل رہا ہے، ایسے میں ہمارے برادر ملک جمہوریہ ترکی نے اپنا نام ہی تبدیل کر دیا ہے، جی ہاں ترکی اب پھر کبھی ترکی نہیں کہلائے گا، اس نے خود کو بدل دیا ہے، اب وہ ترکی کے بجائے “ترکیہ” ہوگیا ہے، لہٰذا خبردار! آئندہ ترکی کو ترکیہ لکھا اور پکارا جائے۔

ترکی نے چند دن قبل اقوام متحدہ میں اپنا نام بدل کر ترکیہ رکھنے کی درخواست دائر کردی تھی، جسے اس کی خواہش پر فوری طور پر سند منظوری عطاء کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی جمہوریہ ترکیہ کی جانب سے تمام عالمی شراکت داروں، بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں کو نام کی تبدیلی کے نئے فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق نام کی تبدیلی کا یہ فیصلہ در اصل ترکیہ کے صدر رجب طیب اَیردوان کی جانب سے ترکیہ کو مکمل طور پر ایک تبدیل شدہ ملک بنانے کی مہم کا حصہ ہے۔ رجب طیب اَیردوان ترکیہ کے ایک وژنری لیڈر ہیں۔ اتا ترک مصطفی کمال پاشا جدید ترکیہ کے بانی ہیں، تاہم ترکیہ کو حقیقی معنی میں جدید، ترقی یافتہ اور مضبوط و مستحکم ریاست بنانے کا سہرا اگر کسی ترک رہنما کے سر بندھتا ہے تو بلا شبہ وہ رجب طیب اَیردوان ہیں۔

رجب طیب اَیردوان دو دہائیوں سے ترکیہ کے منصب حکمرانی پر فائز چلے آ رہے ہیں۔ اَیردوان سے پہلے ترکیہ سماجی انحطاط، معاشی تنزلی اور قرضوں کی دلدل میں دھنسا یورپ کا ایک مردِ بیمار ہی تھا، مگر اَیردوان نے اپنے حسن تدبیر، حسن انتظام، بصیرت اور کامیاب پالیسیوں کے ذریعے ترکیہ کو آج دنیا کی اہم اور مستحکم معیشتوں کی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔

اس سب کے باوجود رجب طیب اَ یردوان امور مملکت کو “ایزی” لینے کے حق میں نہیں، انہیں مسلسل چیلنجوں کا سامنا ہے اور اس چیز کا ادراک کرتے ہوئے وہ مسلسل محنت اور ترکیہ کو مزید تبدیل شدہ اور ترقی یافتہ بنانے کی جہد مسلسل میں لگے ہوئے ہیں۔

ترکی کو ترکیہ بنانا بھی صدر اَیردوان کی طرف سے ملک کو نئی پہچان دینے کی مہم کا حصہ ہے، چنانچہ صدر اَیردوان نے گزشتہ سال دسمبر میں کہا تھا کہ “ترکیہ ترک عوام، ترک ثقافت، تہذیب اور اقدار کی مکمل اور درست عکاسی کرتا ہے۔”

نام کی تبدیلی کے بعد ترک حکومت بڑے زور و شور سے نئے نام کی تشہیر میں مصروف ہے، یہ کوشش اپنی جگہ اور نام کی یہ تبدیلی بھی دنیا کے بہت سے لوگوں کیلئے ایک نئی ڈویلپمنٹ یا واقعی تبدیلی محسوس ہوتی ہوگی، مگر تاریخ میں جھانک کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تبدیلی نہیں، بلکہ اصل یا پرانی شناخت کی طرف مراجعت ہے۔ تاریخ میں ترکی کا لفظ نیا ہے، اس کی جگہ تواریخ میں ہمیشہ ترکیہ ہی مذکور چلا آیا ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق نام کی تبدیلی کے بعد ترک عوام میں ملا جلا رد عمل ہے۔ اگرچہ ترک زبان میں ترکیہ پہلے ہی سے زیر استعمال ہے، ترکی انگریزی پریس اور اس کی متابعت میں اردو میڈیا میں استعمال ہوتا رہا ہے، اس لیے ترک عوام کیلئے ترکیہ نیا نہیں، مگر اب انگریزی میں بھی ترکیہ کے استعمال کے آغاز کو عوام کی بڑی تعداد تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے، تاہم بہت سے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت دراصل ایسے نمائشی اقدامات کے ذریعے ملک کی خراب ہوتی اقتصادی صورتحال سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔

ترکیہ کے عوام کیلئے نام بدلنے کا اقدام جو بھی معنی رکھے، وہ ان کا اندرونی معاملہ ہے اور ہمارے لیے کسی بھی ملک کے اندرونی پھڈوں میں پڑنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ آج ترکیہ نے اپنا نام تبدیل کر لیا ہے، تو ہم جب تک یہ فیصلہ برقرار ہے ترکی کے بجائے ترکیہ کا نام ہی استعمال کریں گے۔

Related Posts