فاٹا بحال، قبائلی علاقوں کا انضمام ختم کیا جائے، کالعدم ٹی ٹی پی کا بڑا مطالبہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فاٹا بحال، قبائلی علاقوں کا انضمام ختم کیا جائے، کالعدم ٹی ٹی پی کا بڑا مطالبہ
فاٹا بحال، قبائلی علاقوں کا انضمام ختم کیا جائے، کالعدم ٹی ٹی پی کا بڑا مطالبہ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کابل میں افغان حکومت کی ثالثی اور میزبانی میں حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جاری مذاکرات کے طویل عمل کے دوران تازہ پیشرفت میں پہلی بار فریقین کے مطالبات سامنے آگئے ہیں، جس کے مطابق ٹی ٹی پی نے قبائلی علاقوں کا انضمام ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایک اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ حکومت پاکستان نے پہلی بار کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرت اور امن بات چیت کا سرکاری سطح پر اعتراف اور اقرار کیا ہے اور کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے تازہ پیشرفت میں جنگ بندی میں غیر معینہ مدت تک توسیع کا خیر مقدم کیا ہے۔

گزشتہ دن وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی سے 2021 ءمیں بات چیت شروع ہوئی تھی۔ یہ بات چیت حکومتی سطح پر ہو رہی ہے اور افغان حکومت اس میں سہولت فراہم کر رہی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ بات چیت کے عمل میں سول اور ملٹری نمائندگی شامل ہے۔انھوں نے کہا کہ جنگ بندی کا حکومتی سطح پر خیرمقدم کرتے ہیں، بات چیت کا دائرہ کار آئینی ہے، مذاکراتی کمیٹی جو بھی فیصلہ کرے گی، اس کی منظوری پارلیمان اور حکومت دے گی۔

پاک افغان امور پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے یہ اہم پیشرفت ہے کہ حکومت پاکستان نے باضابطہ طور پر کالعدم تنظیم کے ساتھ بات چیت کی کھل کر تصدیق کی ہے، تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ فریقین کے درمیان مذاکرات کا عمل درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کا اعتراف در اصل مذاکرات کی کامیابی کیلئے پر امید ہونے کا عکاس ہے اور اس بات کا مظہر ہے کہ فریقین مذاکراتی عمل سے مطمئن ہیں۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی اور مذاکرات میں کوئی خلل اور رکاوٹ پیدا ہوتی یا کسی پیچیدگی کی وجہ سے بات چیت فیصلہ کن موڑ کی طرف جاتی محسوس نہ ہوتی تو اس بات کا امکان کم ہی تھا کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کا اقرار کیا جاتا۔

واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان کے سرحدی علاقوں میں افغانستان کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں تیزی اور شدت آئی تھی اور صورتحال مسلسل گمبھیر ہوتی جا رہی تھی۔ اس بات کا خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد ٹی ٹی پی پہلے سے مضبوط ہو رہی ہے اور اس کے حملوں میں پہلے کی نسبت زیادہ شدت اور جوش دکھائی دے رہا ہے۔

اس منظر نامے میں حکومت پاکستان کی جانب سے افغان حکومت کو بار بار انتباہی پیغامات دیے گئے مگر ٹی ٹی پی نے دونوں ملکوں کے داؤ پر لگتے تعلقات کی پروا کیے بغیر حملے جاری رکھے۔ افغان طالبان نے معاملہ حل کرنے کیلئے فریقین کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی اور ابتدائی طور پر افغان وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی کی سربراہی میں صلح کیلئے فریقین کو نامہ و پیام بھی دیا گیا، تاہم بات چیت زیادہ دیر آگے نہیں بڑھ سکی اور بہت جلد ٹی ٹی پی نے ایک بار پھر خونریز حملے شروع کر دیے۔

گزشتہ سال شروع ہونے والے مذاکرات کے اس ٹوٹتے بندھے سلسلے میں وقت کے ساتھ ساتھ فریقین پر پڑنے والے دباؤ کے باعث جان آتی گئی اور آخر مذاکرات کو معاملات حل کرنے کیلئے موقع دینے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا۔

کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکرات کو فیصلہ کن بنانے کیلئے شمالی، جنوبی و زیرستان اور مالاکنڈ ڈویژن سے قبائلی مشران اور علماء کو بھی مذاکراتی عمل میں شریک کرنے کا مطالبہ کیا گیا، چنانچہ عید الفطر کے بعد فریقین کی جانب سے باقاعدہ مذاکرات کا آغاز کر دیا گیا۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبے پر اپنے کچھ اسیر رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ رکھا گیا، جو مسلم خان اور محمود خان جیسے ٹی ٹی پی رہنماؤں کی رہائی پر منتج ہوا ۔ اعتماد سازی کے اس عمل کے بد لے میں ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔

ذرائع کے مطابق کابل میں جاری مذاکرات کے کئی ادوار میں اب تک جنوبی و شمالی وزیر ستان کے نمائندے شریک ہوچکے ہیں، جنوبی وزیر ستان کا وفد ملاقات و مذاکرات کے بعد وطن واپس لوٹا ہے، جبکہ باقی وفود شیڈول کے مطابق مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئےہیں۔

تازہ ترین پیشرفت میں کالعدم ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے مطالبات سامنے آگئے ہیں،جن کے مطابق ٹی ٹی پی کا بنیادی اور سب سے بڑا مطالبہ قبائلی علاقوں (سابقہ فاٹا) کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کا خاتمہ اور قبائلی علاقوں کی سابقہ حیثیت یعنی فاٹا (وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ) کی بحالی ہے۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے دیگر مطالبات میں قبائلی علاقوں سے فوجی چوکیوں کا خاتمہ یعنی فوج کی مکمل واپسی، ملک بھر میں ٹی ٹی پی کارکنان پر قائم مقدمات کا خاتمہ، قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی روک تھام کی ضمانت اور مالاکنڈ ڈویژن میں نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ ہے۔

جبکہ دوسری طرف حکومت پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی آئین پاکستان کو تسلیم کرے، تمام غیر قانونی اسلحہ جمع کرائے، بغیر لائسنس کوئی اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ٹی ٹی پی داعش سے کوئی تعلق نہیں رکھے گی، جبکہ آخری مطالبہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی تحلیل کا ہے۔

مذاکرات میں اب تک کی پیشرفت، باہمی اعتماد سازی، عوامی، سماجی، فوجی اور حکومتی نمائندوں اور علمائے کرام کی مذاکراتی کمیٹی میں بھرپور شرکت اور فریقین کی جانب سے اب تک کے اقدامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تجزیہ کار پر امید ہیں کہ مذاکرات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی یا کوئی بڑا حادثہ رکاوٹ نہ بنا تو پاک افغان سرحد بہت جلد امن کی آغوش میں آئے گی اور پاکستان کے اندر دہشت گردی میں واضح کمی آئے گی۔

Related Posts