خواجہ سرا خود کو مرد یا عورت نہیں کہلواسکتے، وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد: وفاقی شرعی عدالت نے خواجہ سراﺅں کے حقوق سے متعلق ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلا ف درخواست پر فیصلہ سنا دیا۔

وفاقی شرعی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلاف درخواست پر سناتے ہوئے کہا کہ حکومت خواجہ سراؤں کو طبی، تعلیمی اور معاشی سہولیات فراہم کرنے کی پابند ہے، اسلام خواجہ سراؤں کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے اور حکومت بھی انہیں تمام حقوق دینے کی پابند ہے۔

فیصلے کے مطابق جنس کا تعلق انسان کی بائیولاجیکل سیکس سے ہوتا ہے، نماز، روزہ، حج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے، جنس کا تعین انسان کی احساسات کی وجہ سے نہیں کیا جاسکتا، اسلام میں خواجہ سراؤں کا تصور اور اس حوالے سے احکامات موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

پنجاب حکومت کا دہشتگردوں کی غیر معمولی سہولت کاری پر ایک جج کیخلاف ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ

فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سیکشن 2 این شریعت کیخلاف نہیں، خواجہ سرا تمام بنیادوں حقوق کے مستحق ہیں جو آئین میں درج ہیں، خواجہ سراوں کی جنس کی تعین جسمانی اثرات پر غالب ہونے پر کیا جائے گا، جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہوگا۔

وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کیخلاف درخواستیں نمٹا تے ہوئے فیصلے میں کہا کہ سیکشن 7 کے تحت مرضی سے جنس کا تعین کرکے کوئی بھی وراثت میں مرضی کا حصہ لے سکتا تھا، وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ مرد یا عورت خود کو بائیولاجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہے تو یہ غیرشرعی ہوگا، شریعت کورٹ نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کی سیکشن ایف ٹو بھی خلاف شریعت قرار دے دی، عدالت نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کے تحت بننے والے رولز بھی غیرشرعی قرار دے دیے، کہا گیا کہ غیرشرعی قرار دی گئی دفعات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

Related Posts