اُردو کی نامور شاعرہ پروین شاکر کا 67واں یومِ پیدائش آج منایا جا رہا ہے

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اُردو کی نامور شاعرہ پروین شاکر کا 67واں یومِ پیدائش آج منایا جا رہا ہے
اُردو کی نامور شاعرہ پروین شاکر کا 67واں یومِ پیدائش آج منایا جا رہا ہے

اُردو زبان کی باکمال اور نامور شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے ہوئے پچیس سال کا طویل عرصہ گزرا جبکہ آج مداح عہد ساز شاعرہ کا 67واں یومِ پیدائش منا رہے ہیں۔

پروین شاکر نے  24 نومبر 1952ء کو شہرِ قائد میں آنکھ کھولی جبکہ شہرتِ دوام حاصل کرنے والی پروین شاکر کا پہلا مجموعہ خوشبو شاعری کے میدان میں ان کی پہلی پہچان بنا۔

خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کا پہلا مجموعہ 1976ء میں شائع ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچا تو ملک بھر میں ان کے حسنِ بیان کی دھوم مچ گئی جس کے بعد ماہِ تمام، خود کلامی اور انکار نامی شاعری کے مجموعے بھی شائع ہوئے۔

باکمال شاعرہ پروین شاکر کو موت سے قبل خالقِ حقیقی سے جا ملنے کا علم ہوچکا تھا، جس کی گواہی ان کے اشعار میں دیکھی جاسکتی ہے، خصوصاً یہ شعر:

مر بھی  جاؤں تو کہاں لوگ بھُلا ہی دیں گے

لفظ میرے مِرے ہونے کی گواہی دیں گے

ان کی شاعری میں ایک الگ اور منفرد اندازِ بیان نظر آتا ہے جو قاری کو ذہن و فکر کی ہر سطح پر متاثر کیے بغیر نہیں رہتا:

بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے

یہی کیا  کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے؟

بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی میں  نے

اور مِری ساری فضیلت اِسی پوشاک سے ہے

خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے

وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے

ہاتھ تو کاٹ دئیے کوزہ گروں کے ہم نے

معجزے کی وہی اُمید مگر چاک سے ہے 

روایتی شاعری کے موضوعات بشمول عشق، بے وفائی اور ہجر و وصال کے ساتھ ساتھ جدید شاعری کے استعارے اور اندازِ بیان بھی پروین شاکر کا خاص ہتھیار ثابت ہوا:

عقب  میں گہرا سمندر ہے، سامنے جنگل

کس انتہا پہ مِرا مہربان چھوڑ گیا؟

عقاب کو تھی غرض فاختہ پکڑنے سے

جو گر گئی تو یونہی نیم جان چھوڑ گیا

شاعری کے ساتھ ساتھ شعبۂ تدریس اور سول سروس میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والی پروین شاکر کا امتیاز صرف اور صرف اُردو شاعری بنی جو ہر دور میں انہیں زندہ رکھے گی۔

حکومتِ پاکستان نے پروین شاکر کی شعبۂ ادب میں خدمات کے اعتراف میں انہیں 1990ء میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور آدم جی ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا۔

پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو ایک کار ایکسیڈنٹ کے باعث اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں، لیکن مداح ان کے اندازِ بیان، طرزِ اظہار اور فکر کی بالیدگی کو ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔ 

Related Posts