قومی سلامتی کے لئے خطرہ

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

یہ ایک بڑی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کی سب سے گہری سیاسی تقسیم سول اور فوج کی تقسیم ہے۔ اور یہ شدید قسم کی منافرت پر مبنی ہے۔ منافرت بھی وہ جو یک طرفہ پروپیگنڈوں کے ذریعے سیاستدانوں کے خلاف پیدا کی گئی۔

کسی کو کرپٹ کہا گیا، کسی کو سیکیورٹی رسک تو کسی کو مودی کا یار۔ اور اب نتیجہ یہ ہے کہ ہم فوج کے سربراہ کو مختلف منفی القابات سے نوازا جاتا دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ کو اس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ سیاسی تقسیم میں ایک فریق فوج کو کیسے کہہ دیا گیا؟ فوج کا تو سیاست سے آئینی طور پر تعلق ہی نہیں، تو کتابی طور پر آپ درست سوچ رہے ہیں مگر عملاً 70 سال سے فوج سیاسی فریق ہی چلی آرہی ہے۔

صرف فوج ہی کیا یہاں تو بیشتر جج بھی سیاست ہی کرتے آئے ہیں۔ خدا کرے کہ کتابی صورتحال پیدا ہو مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا ہم فوج کو ایک سیاسی فریق کے طور پر ہی دیکھیں گے۔ پچھلے سال اکتوبر سے فوج نیوٹرل ہوگئی ہے مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس قسم کی پسپائیاں عارضی ہوتی ہیں۔ کچھ مشکلات کے سبب فوج سیاسی محاذ سے پیچھے ہٹتی ہے اور تازہ دم ہوکر کچھ عرصے بعد نئی صورتحال میں ایک بالکل نئی بساط کے ساتھ پھر آجاتی ہے۔

تین ناکام مارشل لاؤں کے بعد ہماری فوج نے جنرل مشرف کے دور میں ایک نیا تجربہ کیا۔ وہ یہ کہ ملک میں مارشل لاء نہیں تھا، صرف فوجی حکومت تھی اور حکومت بھی ایسی جس نے افتخار چوہدری والی صورتحال تک میڈیا کو آزادی بھی سیاستدانوں سے زیادہ دے رکھی تھی۔ مگر یہ تجربہ بھی ناکام ہوا۔ سو فوراً ہائیبرڈ نظام والا تجربہ کردیا گیا۔ اس نظام میں اخیرالمؤمنین دن بارہ بجے بیدار ہوکر ہیلی کاپٹر پر سوار ہوتے اور وزیر اعظم ہاؤس جا کر فائلوں پر دستخط کرکے شام پانچ بجے بنی گالہ لوٹ آتے۔

بظاہر ملک کے چیف ایگزیکٹو اخیر المؤمنین ہی تھے مگر احکامات فیض المؤمنین کے چلتے۔ یوں تو فیض المؤمنین ہر وزارت کا ہی کنٹرول رکھتے تھے مگر جن دو وزارتوں کے حوالے سے وہ زیادہ مشغول نظر آتے وہ داخلہ اور اطلاعات کی وزارتیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید احمد ملکی تاریخ کے سب سے بے دست و پا وزیر داخلہ تھے۔ مگر یہ ہائیبرڈ نظام صرف ناکامی سے ہی دوچار نہ ہوا بلکہ تاریخ کی سب سے بدترین ناکامی اسی کے حصے میں آئی۔ ایک ایسی ناکامی جس نے ملکی معیشت کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا اور خارجہ محاذ پر پاکستان ایسی تنہائی کا شکار ہوا کہ امریکہ، چین، سعودی عرب اور ترکی جیسے سٹریٹیجک پارٹنرز بھی ناراض ہوگئے۔

سوال یہ ہے کہ فوج کی ہر کوشش بالآخر ناکام کیوں ہو جاتی ہے؟ اور یہ پے درپے ناکامیوں سے سبق سیکھ کر سیاسی مداخلت کی راہ ترک کیوں نہیں کرتی؟ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بھی جونیئر آفیسرز صورتحال کو کرکٹ میچ کی طرح دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جیسے کرکٹ میچ کے دوران ملک کے ہر ڈرائنگ روم میں بیٹھے “ماہرین کرکٹ” بتا رہے ہوتے ہیں کہ اگر فلاں کو ساتویں کی بجائے تیسرے نمبر پر بیٹنگ کے لئے بھیج دیا جاتا، یا فلاں کی بجائے فلاں سے آخری اوور کرایا جاتا تو میچ جیتا جاسکتا تھا۔ بعینہ جونیئر بھی سوچتے ہیں کہ اگر فلاں فلاں حرکت نہ کی جاتی اور فلاں فلاں کام کر لئے جاتے تو کامیابی قدم چوم سکتی تھی۔

چنانچہ ان جونیئرز میں سے جب کوئی اپنے وقت پر بااختیار بن جاتا ہے تو پھر وہ سوچتا ہے کہ اب میں دکھاؤں گا کہ لالٹین کیسے پکڑی جاتی ہے۔ یوں ہم ایک نئے تجربے سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ذرا غور کیجئے، اس 70 سالہ تاریخ کے دوران جب بھی مداخلت ہوئی اس کا مقصد کیا ہوتا تھا ؟ بس اتنا کہ ہم نے وزیر اعظم کو اپنی مرضی کے تابع کرنا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو پھر مرضی کا وزیر اعظم لانا ہے۔ مگر اکتوبر 2022ء میں ہم ایک ایسی صورتحال میں کھڑے ہیں جو ہماری تاریخ میں پہلی مرتبہ پیش آئی ہے، اور بہت ہی خطرناک ہے۔

آج پہلی مرتبہ گیم یہ چل رہی ہے کہ مرضی کا آرمی چیف لانا ہے۔ یعنی اب سیاست میں فوج کی مداخلت کی صورتحال نہیں بلکہ فوج میں سیاست کی مداخلت کا منظر ہمارے سامنے ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ جس طرح فوج کو سیاستدانوں کے حلقے سے آلہ کار مل جاتے تھے اسی طرح اخیرالمؤمنین کو بھی آلہ کار میسر ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔

پہلے کہا جاتا تھا کہ فوج کو بعض سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ آج کہا جا رہا ہے اخیر المؤمنین کو فوج کے بعض افسران کی حمایت حاصل ہے۔ گویا جو کھیل 70سال تک فوج سیاستدانوں کے خلاف کھیلتی آئی تھی وہی آج اسی کے گلے پڑ گیا ہے۔ اور اب خود فوج کو سیاسی مداخلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔مگر اس صورتحال کا اس سے بھی زیادہ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اصل کھلاڑی اخیر المؤمنین نہیں بلکہ فیض المؤمنین ہیں۔

اگر ایسا ہے تو اس کی حساسیت یہ ہے کہ گھر کو گھر کے چراغ سے خطرہ لاحق ہے۔ سو یہ اہل خانہ کے سوچنے کی بات ہے کہ اگر ایٹمی ریاست کی فوج کی سربراہی کے حصول کے لئے ایسے غیر قانونی اور ڈسپلن شکن حربوں کا آغاز ہوچلا ہے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟ ہماری پوری تاریخ میں فوج کے کمانڈر تعینات ہوتے آئے ہیں۔ اب پہلی بار قبضے کی کوشش ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایسی کسی کوشش کا گلا تو آغاز ہوتے ہی گھونٹ دینا چاہئے تھا، مگر یہاں تو یہ ہوا کہ اس کی شاید چار سال حوصلہ افزائی کی گئی اور جب عین فیصلہ کن برس آیا تو اب اسے ناکام بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اور اس کوشش میں دانتوں پسینے چھوٹ رہے ہیں۔

خدا را ان عناصر کو عبرت کی مثال بنایئے۔ ایسا نہ کیا گیا تو پانچ دس سال بعد کوئی اور اس سے بھی آگے جانے کی کوشش کرے گا۔ ان حالات میں ہماری تو یہی دعا ہے کہ خدا کرے کمان کی تبدیلی کا عمل بخیر و خوبی انجام پائے۔ اور نیا چیف سنجیدگی سے اس صورتحال کا جائزہ لے جو اس لئے پیش آئی کہ کسی نے آرمی چیف بننے کے لئے ڈسپلن کو پائمال کیا۔ سخت گیر قسم کے اقدامات سے مستقبل میں اس کا تدارک ممکن ہے۔ لیکن فساد کی اصل جڑ پر بھی غور کرنا ہوگا۔

فساد کی اصل جڑ فوج کی سیاست میں مداخلت ہے۔ یہ انہی مداخلتوں کا نتیجہ ہے کہ آج سیاست میں فوج کی مداخلت کی بجائے فوج میں سیاسی مداخلت کا دور آگیا ہے۔ جو آگ دوسروں کے گھر بھسم کرنے کے لئے سلگائی گئی تھی وہ اپنے گھر تک آگئی ہے۔ ان حالات میں تمام اداروں اور محکموں کا اپنی اپنی حدود میں مستقل بنیاد پر جانا اب فرض ہوچکا ہے۔ موجودہ کھلواڑ میں شریک ان سیاستدانوں، جرنیلوں اور ججز کو عبرت کی مثال بنانا ہوگا جو اس خطرناک سازش میں شریک ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو فوج کی سربراہی پر قبضے کی ناکام کوشش کا مطلب بھی یہ ہوگا کہ ہماری قومی سلامتی شدید قسم کے خطرے سے دوچار ہوگئی ہے۔

Related Posts