اتحادیوں کی دھمکی

مقبول خبریں

کالمز

zia-1-1-1
بازارِ حسن سے بیت اللہ تک: ایک طوائف کی ایمان افروز کہانی
zia-1-1-1
اسرائیل سے تعلقات کے بے شمار فوائد؟
zia-1-1
غزہ: بھارت کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پارلیمانی سیاست میں مخلوط حکومت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اپنے آپ کو اقتدار میں رکھنے کے لیے اتحادی جماعتوں اور قانون سازوں کو مسلسل تسلی دی جائے۔ پی ٹی آئی نے 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن پھر بھی اسے مکمل اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد ایک کمزور اتحاد کی طرف جانا پڑا۔

ان اتحادی شراکت داروں پر وزارتیں، فنڈز اور پالیسی اثر و رسوخ کے حوالے سے احسانات کی بارش ہوتی ہے۔ یہ جماعتیں اگلے انتخابات سے قبل ذاتی فوائد حاصل کرنے کے بعد بالآخر آخری مراحل میں الگ ہو جاتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار میں آنے کے بعد سے ایسے اتحادی پارٹنرز کا سامنا کرنا پڑا،جو اب ان کے سب سے بڑے چیلنج عدم اعتماد کے موقع پر انہیں چھوڑنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ق)، جس نے مشرف کے دور میں اقتدار میں بے لگام دوڑ لگا رکھی تھی، پی ٹی آئی کی زیر قیادت مخلوط حکومت کا نمایاں حصہ ہے۔ ق لیگکے پاس پنجاب اسمبلی میں صرف دس نشستیں ہیں لیکن پھر بھی وہ اسپیکر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ کافی نہیں تھا کیونکہ پرویز الٰہی پنجاب پر دوبارہ حکومت کرنے کے لیے تڑپ رہے تھے۔ مناسب موقع اس وقت آیا جب وزیراعظم کو اقتدار کھونے کے امکانات کا سامنا ہوا اور وہ ایک بڑا عہدہ ایک چھوٹی جماعت کے حوالے کرنے پر مجبور ہوئے۔

ایک اور اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان جس نے دیکھا کہ ان کا کراچی سے اثر و رسوخ کم ہورہا ہے، جہاں کبھی ان کا مکمل کنٹرول ہوتا تھا، وہ بھی پی ٹی آئی کی زیر قیادت حکومت کا حصہ رہی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کراچی کے حقوق کے لئے کوئی اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے لیکن ذاتی مفادات کے لیے اقتدار میں رہنے میں کامیاب رہی ہے۔ وزیر اعظم پر لٹکتی تلوار کے موقع پر ان کی بھی حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے بہتر ڈیل پر نظریں جمی ہوئی ہیں۔

اپوزیشن کی جانب سے دیگر جماعتوں کو بھی حوصلہ ملا ہے، بی اے پی بھی اپوزیشن میں شامل ہوگئی ہے، جو کہ 2018 کے انتخابات سے عین قبل تشکیل دی گئی تھی، اور دیگر بلوچ رہنما جیسے کہ اختر مینگل اور شاہ زین بگٹی جو حکمران جماعت کا ساتھ دیتے آرہے تھے، انہوں نے بھی آخر کار بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے ہوئے حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

اتحادی جماعتوں کی موجودگی کو پارلیمانی سیاست میں ایک اضطراب کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ یہ پارٹیاں قانون سازی اور آئینی تبدیلیوں میں رکاوٹ ہیں۔ حکمران جماعت کو کوئی راستہ نکالنا چاہیے کہ طویل مدتی میں ایسی جماعتوں سے کیسے نمٹا جائے۔ سیاسی جماعتوں کو ذاتی مفادات کی بجائے جمہوری اصولوں کا پابند ہونا چاہیے۔

Related Posts