پاکستانی قوم کا بڑا المیہ

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملکی سیاست پنجاب میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے پیشِ نظر ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی۔ حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کے دوران جمہوریت کا مذاق اڑانے کے بعد بالآخر سیاست ایک تکلیف دہ موڑ پر پہنچ گئی ہے جسے میں کافی عرصے سے دیکھ رہا تھا، تاہم اس سے قبل ان عوامل کا جائزہ لینا ضروری ہے جو پنجاب کی سیاسی صورتحال کی موجودہ تشکیل کا باعث بنے۔

بانئ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی وقت کے اعتبار سے غیر متوقع وفات کے بعد جو قیادت آئی، وہ ملک کی واحد قومیت کا تصور پیدا کرنے میں یکسر ناکام رہی بلکہ یکے بعد دیگرے آنے والی قیادتیں اقتدار پر قبضہ کرنے اور اپنی سیاسی پیروی کو مستحکم رکھنے کیلئے صوبائی عصبیت اور نسلی کارڈ کھیلتی نظر آئیں۔ وفاق یا تو بہت زیادہ آمرانہ، متعصب اور غافل یا پھر سراسر غیر جانبدار اور غیر منصفانہ ردِ عمل کا مظاہرہ کرتا رہا۔

اس کی ایک بڑی مثال گلگت بلتستان کے متعلق ناقابلِ معافی عدم دلچسپی ہے جس کے شہریوں کو قومیت سے محروم کردیا گیا لیکن آزادی سے لے کر اب تک اسے صرف چند سال قبل ہی جزوی صوبائی حیثیت دی گئی اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ گلگت بلستان کے لوگ ہی وہ واحد قوم سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کرکے اپنی مرضی سے ریاستِ پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا جس پر انہیں ناز ہونا چاہئے۔

وفاقی حکومت بلوچوں سے قومی دھارے میں آنے کی توقع کیسے رکھ سکتی ہے جبکہ 50 کی دہائی کے اوائل میں وہاں دریافت ہونے والی قدرتی گیس ملک میں سوائے بلوچستان اور اس کے دارالحکومت کوئٹہ کے، ہر جگہ پہنچ گئی اور وہاں 1984 میں فراہم کی گئی؟ مرکز نے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی میں کتنی دلچسپی دکھائی؟ دہائیوں سے جاری بے فکری اور جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کی پالیسی تشویشناک حد تک حیرت انگیز ہے۔

طویل عرصے سے بلوچستان پر نسل پرست سیاستدانوں اور وڈیروں کا قبضہ ہے، جیسا کہ معیشت پر اسمگلرز، منشیات فروش اور جاگیردار قابض ہوئے۔ ریاست میں خیر خواہی تو سرے سے نظر ہی نہیں آئی۔ نچلی سطح پر ریاستی رِٹ قائم کرنے کیلئے ضروری خیر خواہی اور معتبر ارادے کے بغیر کی جانے والی کبھی کبھار کی کاوشیں بھی بری طرح ناکام ہی رہیں۔

ایک اور غیر ایماندارانہ چال یہ چلی گئی کہ ریاستی اقتدار سے بتدریج لیکن غیر محسوس طریقے سے ان لوگوں کو نکال باہر کیا جائے جنہوں نے تحریکِ آزادئ پاکستان کی قیادت کی جو بنگالی، سندھی اور اردو بولنے والے مہاجر تھے۔ مشرقی پاکستان سے علیحدگی اور سندھ میں جی ایم سید کی مکمل بیزاری کے بعد اشرافیہ کی دھوکہ دہی تکمیل پذیر ہوئی اور ذہنی طور پر چست اردو بولنے والے مہاجرین بنیادی طور پر کراچی میں بس گئے جو افسوس کے ساتھ وہیں ہیں۔

مہاجروں کو سوالیہ نشان بناتے ہوئے ہوئے آہستہ آہستہ ریاست مخالف اور سکیورٹی رسک تک قرار دے دیا گیا جس سے وہ ملک دشمن اور دہشت گرد لگنے لگے اور ساتھ ہی ساتھ ملک کی تقسیم در تقسیم کی سیاست بھی تیزی سے پنپنے لگی۔ قوم کئی دہائیوں سے ادھار کی رقم پر خرچ کے جنون میں جی رہی ہے اور اب بھی مسلم دنیا میں طاقت اور قیادت کے غلط تصورات رکھتی ہے۔

ایسا کبھی نہ ہوتا لیکن ہمارے آنے والے کسی بھی لیڈر کو اس مسلسل رسوائی کا احساس بلکہ افسوس تک نہیں ہوا۔ مجال ہے  جو کبھی اس بے عزتی پر ضمیر نے بھی ملامت کی ہو اور ہم شاہانہ نو آبادیاتی نظام کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ شاہانہ اور وسیع ریاستی ڈھانچے بنائے گئے، وسیع و عریض سرکاری رہائش گاہیں بنیں اور اعلیٰ ریاستی تقرریوں کیلئے درجنوں کے فلوٹیلا میں بے ہودہ حد تک مہنگی گاڑیاں خریدی گئیں۔

وزیر اعظم اور ان کے وزراء کے ساتھ بیرونِ ملک حج بھی سرکاری خرچ پر ہوئے۔ وفاقی کابینہ کے لاؤ لشکر، جعلی منصوبوں کے اشتہارات پر اربوں خرچ کیے گئے اور پارٹی ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈز دینے کے نام پر قومی خزانے کو بے تحاشا لوٹا گیا۔ ان تمام تر مظالم کی فہرست طویل ہے تاہم یہاں جس نکتے کو سمجھانا مقصود ہے وہ ماحول ہے جیسا کہ پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ کی شکست، مرشد آباد کے خزانے میں لوٹ مار اور میر صادق کی مسکراہٹ تھی۔

ہمارے ملک میں بغیر کسی استثنیٰ کے ریاستی وسائل کی ایسی مجرمانہ لوٹ مار روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس کی بجائے سیاستدانوں نے اپنے بیگز بھرے، مہنگی جائیدادیں خریدیں اور لوٹی ہوئی رقوم بیرونِ ملک محفوظ اکاؤنٹس میں جمع کرادی۔ اس کے باوجود حکومت جھوٹ بولتی رہی کہ ہم ایک خودمختار، آزاد اور توانا ایٹمی طاقت ہیں جبکہ عالمی فہرست میں ہمارا چوتھے نمبر پر آنا بھی ستم ظریفی سے کم نہیں۔

مستقبل میں آئی ایم ایف کے چند ارب ڈالر ملنے سے ہمارا سر شرم سے جھکنے کی بجائے فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک انتہائی محنتی اور باصلاحیت قوم کو نااہل اور حقیر لیڈروں نے گھٹنوں کے بل گھسٹ گھسٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا؟ تاریخ نے شاید ہی اتنی کم تعداد میں اہل لیڈر دیکھے ہوں گے جتنے ہمیں دستیاب ہوئے۔

ہمارا سیاسی وسماجی خمیر بدمعاش سیاستدانوں، پولرائزڈ مذہب کے ٹھیکیداروں، غیر معیاری تعلیم، اخلاق باختہ اقدار اور حد سے بڑھی ہوئی ذاتی انا کا زہریلا مرکب ہے۔ اس میں دو اور عوامل بھی شامل ہیں جنہیں فوج اور ملا کہا جاسکتا ہے۔ فوج کے منہ کو سیاست کا خون تب لگا جب مرحوم فیلڈ مارشل ایوب خان کو موجودہ آرمی چیف کے طور پر وزیرِ دفاع بھی بنادیا گیا۔ یہ وہ اصل گناہ تھا جس نے آگے چل کر فوج کے اقتدار سنبھالنے کی راہ ہموار کی۔

فوج حب الوطنی کی نگہبان اور آخری ثالث بھی قرار پائی اور ملک کی زمینی سرحدوں کے علاوہ نظریاتی سرحدوں کے دفاع کا بھی بیڑہ اتھا لیا۔ دونوں خود تفویض کردہ فوجی مینڈیٹ سے بالا تر تھے جس سے قومی زندگی کے کم و بیش ہر شعبے میں جی ایچ کیو کی مداخلت کی راہ ہموار ہوئی جبکہ نظریاتی سرحد کی حفاظت فوج کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں، علمائے کرام، دانشوروں بلکہ قوم کے ہر شہری کا فرض تھی۔

حب الوطنی کے نام نہاد واحد نگہبان ہونے کی وجہ سے فوج کی قوم پرستی کی تعریف کو حد سے زیادہ اہمیت دی گئی اور اس طرح اس کی قبولیت کا دائرہ محدود کیا گیا جس سے تباہ کن طور پر ملک کے مردوں کی ایک بڑی تعداد ملکی اقتدار میں شرکت اور ملکیت سے محروم ہوگئی۔ سیاسی میدان میں فوج کے داخلے کے نتیجے میں سول سیکٹر ہر شعبے میں مدد اور ثالثی کا طالب بن جاتا ہے۔

اندرونی طور پر دونوں ہی شعبے ناقص محرکات کا شکار ہوئے۔ فوج کی جانب سے ایک ہموار خود مختاری حاصل کی گئی جو زیادہ تر قومی معاملات پر اپنے فیصلے خود کیا کرتی ہے۔ ملا کو شروع ہی سے باضابطہ طور پر اقتدار کی راہداریوں میں شریک کیا گیا جس میں خاص طور پر مرحوم جنرل ضیاء الحق کا زمانہ شامل ہے جب جہاد کے نام پر پاکستانیوں کو افغانستان کی جنگ میں جھونک دیا گیا اور یہ وہ فیصلہ تھا جس نے ملک اور ایمان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔

ملا نے پاکستانی قوم کے مبہم سرکاری بیانیے کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اسے ہر فرقے کے اپنے مخصوص عقیدے اور فیشن کے مطابق ڈھالنا شروع کردیا۔ شیعہ سنی تنازعے کی پیوند کاری کیلئے بھائی کو بھائی سے لڑایا گیا اور زمین کو خون سے زرخیز کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب پاکستان کے پاس مذہبی و سیاسی جماعتوں کی ملیشیا اور جے یو آئی اور ٹی ایل پی جیسے فرقہ وارانہ جنگجو سیاسی کارکن بنے گھوم رہے ہیں۔ یہ معاشرے اور عقیدے کی کتنی خوفناک برائی ہے۔

قوم کی حالت کا یہ مختصر جائزہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچنے میں مدد فراہم کرتا ہے کہ ملکی نظام کو قابلِ عمل بنانے کیلئے پورے ریاستی نظام کو از سرِ نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے ، بصورتِ دیگر ملک کی کشتی کسی بھی وقت ڈوب سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی قوم صورتحال کا احساس کرتے ہوئے آگے بڑھنے کیلئے ایک نیا لائحۂ عمل تشکیل دے۔ 

Related Posts