پاکستان اور افغانستان کے مابین برادرانہ تعلقات موجود ہیں، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرحد پار سے دہشت گردی اور طالبان حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کو لگام ڈالنے میں مسلسل ناکامی نے مختلف اہم سوالات کو جنم دیا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ان سوالات کا جواب دیا جائے۔
ضروری ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف بیرونی تعاون پر تبادلہ خیال کرے، اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کے بھی فرائض ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اقدام میں معاونت کریں۔ افغانستان کے تناظر میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کسی ریاست پر دوسری ریاست کی سرزمین سے حملہ ہونے کی صورت میں عالمی سطح پر اس کے قانونی اثرات ومضمرات کیا ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کی اپنی داخلی سلامتی کی پالیسیوں کی بات کی جائے تو بالخصوص دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان (NAP) وضع کیا گیا ہے اور نیشنل ایکشن پلان کے ابتدائی طور پر 21 نکات تھے، جو مختلف اقدامات کے نفاذ کے بعد 14 رہ گئے۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو آگے بڑھاتے ہوئے ملک دشمن عناصر کے خلاف عسکری کارروائیاں کیں، جن میں فرقہ وارانہ تنظیموں اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف اقدامات شامل ہیں۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے غیر عسکری اقدامات انتہائی ضروری اور وقت کی ضرورت ہیں جوکہ اب تک نامکمل ہیں، اسی طرح پاکستان کو صنعتی ترقی کی بھی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی استعدادِ کار میں اضافہ کیاجاسکے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوامِ متحدہ جیسا عالمی ادارہ جو بین الاقوامی امن و سلامتی کے تحفظ کا ذمہ دار ہے، اسے خاص طور پر دہشت گردی کے معاملات میں اپنے چارٹر کے مطابق کھل کر سامنے آنا چاہئے۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1371 اور 1267 سمیت دیگر عالمی قوانین رکن ممالک کو اپنی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کو روکنے کا پابند بناتی ہیں اور ضروری یہ ہے کہ پاکستان ان قراردادوں کا حوالہ دے عالمی برادری سے حمایت کی درخواست کرتے ہوئے مالی امداد اور دہشت گرد گروہوں کو پناہ دینے والی ریاستوں پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان میں سرحد پار دہشت گردی کے حملوں میں 66 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔افغانستان کی سرزمین سے دہشت گرد گروہوں، خاص طور پر ٹی ٹی پی اور داعش، کے خلاف طالبان کے غیر فعال رویے پر ہر ذی شعور پاکستانی کو تشویش ہونی چاہئے اور طالبان حکومت کو افغان سرزمین کو دہشت گرد تنظیموں کے استعمال سے روکنے کے سابقہ وعدے یاد دلانا ہماری سفارتی ذمہ داری ہے۔
ٹی ٹی پی اور داعش کے جنگجوؤں کے بڑھتے ہوئے خطرے، اور اس کے علاقائی و عالمی سلامتی پر اثرات کو دیکھتے ہوئے عالمی برادری کو فوری کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کے پھیلاؤ کو خطے سے باہر جانے سے روکا جا سکے۔ہم من حیث القوم کا اقوام متحدہ سے طالبان پر پابندیاں عائد کرنے اور ان پر دباؤ بڑھانے کا مطالبہ کرسکتے ہیں کیونکہ وہ دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
یہاں ہم امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مختص کیے گئے وسائل کااعتراف کرتے ہیں ، جبکہ پاکستان کو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک قرار دیا گیا ہے۔طالبان کے ساتھ روابط رکھنے اور سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے دوہری حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ جبکہ پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انتہائی اہم کردار اقوام متحدہ سمیت کئی ممالک نے تسلیم کیا ہے۔
ہم نے دہشت گردی کے خلاف عسکری کارروائیوں کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا، جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔تاہم غیر عسکری اقدامات میں کمی دیکھی گئی، جس کی بنیادی وجہ وسائل اور مالی معاونت کی کمی ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کے مسائل کی جڑیں افغان جنگ کے بعد کے حالات سے منسلک ہیں، جب امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف لڑنے والوں کے لیے وافر مدد فراہم نہیں کی۔
وسائل کی کمی کے سبب سوویت یونین کے خلاف سابقہ جنگجوؤں کی بحالی میں ناکامی نے پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ میں کردار ادا کیا۔پاکستان میں متعدد دہشت گرد گروہ ایسے نظریات سے متاثر ہیں جو افغانستان سے پھوٹے ہیں۔طالبان کی جانب سے ان گروہوں کو قابو میں نہ رکھ پانے کا مسئلہ پاکستان کے لیے ایک بڑا خدشہ ہے، خاص طور پر دوحہ معاہدے کے بعد طالبان نے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کے بجائے رہا کر دیا، جس سے ان کے ارادوں اور صلاحیتوں پر سوالات اٹھتے ہیں۔
طالبان کے مختلف دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تاریخی تعلقات ان کی حکمرانی اور کنٹرول کی کوششوں کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ عالمی برادری میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر اعتماد کم ہو رہا ہے، خاص طور پر غزہ اور کشمیر جیسے معاملات پر اس کی بے عملی کے باعث اس اعتماد میں کمی آئی۔ عالمی سطح پر طالبان حکومت کو رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، مگر وہ بھارت اور جاپان سمیت کئی ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کر رہے ہیں۔
طالبان کو تسلیم نہ کیے جانے کی بنیادی وجہ دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدے وفا کرنے میں ناکامی ہے اور خاص طور پر اس ضمن میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کیے گئے عہدو پیمان اہمیت کے حامل ہیں۔دلچسپ طور پر امریکہ طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کیے بغیر اقوام متحدہ کے ذریعے افغانستان کو انسانی امداد فراہم کر رہا ہے۔
دوسری جانب طالبان اپنے منجمد اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی حکومت کو مضبوط اور بہتر طریقے سے چلا سکیں اور بین الاقوامی وعدے پورے کر سکیں۔پاکستان اپنی سابقہ پالیسیوں میں کوتاہیوں کا اعتراف کرتا ہے اور طالبان سے تعلقات کے حوالے سے ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان غیر محفوظ سرحد بدستور ایک چیلنج بنی ہوئی ہے، جس کے باعث سرحد پار دہشت گردی جاری ہے۔
ضروری ہے کہ ان دہشت گردی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے پاکستان اپنی سفارتی کاوشیں مزید مؤثر بنائے اور طالبان کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات کے پیچیدہ مسائل کا حل تلاش کرے تاکہ تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی صورتحال اور جیو پولیٹیکل تناظر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ابھر کر سامنے آنے والے نت نئے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اپنے معاشی مسائل پر قابو پا کر ملکی ترقی و خوشحالی کی راہ میں آنے والی تمام تر رکاوٹوں کو دور کیاجاسکے۔