ہمارے ہاں غیر ملکی میڈیا کے حوالے سے چلن یہ ہے کہ اگر امریکہ یا مغرب میں کوئی بڑا واقعہ ہو تو سی این این، بی بی اور الجزیرہ وغیرہ دیکھ لئے۔ واقعہ گزر جائے تو اگلی بار اب یہ چینلز تب دیکھے جاتے ہیں جب اگلا بڑا واقعہ رونما ہوجائے۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال انڈین و عرب میڈیا کے حوالے سے بھی ہے۔ پچھلا سال امریکی انتخابات کا سال تھا۔ یہ انتخابات ہمارے حوالے سے بھی خصوصی اہمیت رکھتے تھے۔اور یہ اہمیت اس لحاظ سے تھی کہ مارشل لاؤں سے چشم پوشی یا پھر اس کی کھل کر عملا حمایت امریکہ کی ریپبلکن پارٹی ہی کیا کرتی ہے۔
ڈیموکریٹس ہمیشہ مارشل لاء کے حریف رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ مارشل لاء یا فوجی عمل دخل والی حکمرانی کا آغاز تب ہوتا ہے جب امریکہ میں ڈیموکریٹ پارٹی کا صدر اپنی دوسری ٹرم پوری کرنے والا ہوتا ہے۔ اب چونکہ یہ وہاں کی طے شدہ روایت ہے کہ دو ٹرم پوری کرنے والے صدر کے بعد مخالف پارٹی ہی اقتدار میں آتی ہے سو ہمارے ہاں ڈیموکریٹس کی دوسری ٹرم کے آخری دو سالوں میں اس خیال کے ساتھ جمہوریت کا بوریا گول کرنے کی تیاری شروع کردی جاتی ہے کہ اب ریپبلکنز کے دور میں یہاں ہماری باری ہوگی۔
اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں مارشل لاء ہمیشہ آٹھ سے دس سال ہی چلتا ہے۔ ہمارے ہاں آج کل جو سیٹ اپ چل رہا ہے اس کے حوالے سے یہ بات کوئی سربستہ راز نہیں کہ تشکیل ایک ”دس سالہ پروگرام” ہی دیا گیا ہے۔ اور یہ پلان ٹرمپ کی صدارت کی دو ٹرمز پیش نظر رکھ کر ہی ترتیب دیا گیا تھا۔ یوں گویا پچھلے سال والے امریکی انتخابات ہمارے لئے اس لحاظ سے بہت اہم تھے کہ اس کے نتائج پر خود ہمارے ہاں کے دس سالہ منصوبے کا انحصار تھا۔چنانچہ اکتوبر سے ہی روز پابندی کے ساتھ امریکی میڈیا دیکھنا شروع کردیا۔
صرف نیوز ہی نہیں بلکہ ٹاک شو بھی پوری پابندی کے ساتھ دیکھے۔ خیال یہ تھا کہ انتخابات کے نتائج آنے تک یہ سلسلہ پوری پابندی سے جاری رکھا جائے گا۔ مگر جو تماشا وہاں انتخابات کے بعد شروع ہوا اس نے امریکی نیوز چینلز سے انتخابات کے بعد کے مرحلے میں بھی چپکائے رکھا۔کامل پابندی کے ساتھ روز گھنٹوں امریکی میڈیا دیکھنے سے امریکی سیاسی نظام سے متعلق کچھ دلچسپ تجربات حاصل ہوئے۔
پہلا تجربہ تو یہ حاصل ہوا کہ ہمارے ہاں دیسی لبرلز اس نظام سے کے حوالے سے جو چورن بیچتے ہیں وہ اسی طرح کے مبالغے پر مبنی ہے جس طرح کا مبالغہ ہمارے ہاں لانگ روٹ کی بسوں میں چورن بیچنے والے اپنے چورن سے متعلق کرتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ ہمارا دیسی لبرل ہمیں بتاتا رہا ہے کہ سیاست میں مذہب کا کارڈ اور نسلی امتیاز بس ہمارے ہاں ہی ہے۔ امریکہ اور مغرب میں ایسا کچھ نہیں۔ جبکہ امریکی سیاسی نظام میں مذہب کا کارڈ یوں موجود ہے کہ سپریم کورٹ کے بینچز تک میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ بینچ پر لبرل جج کتنے ہیں اور کنزرویٹو کتنے؟یہ کنزرویٹو کون ہیں؟ امریکی میڈیا صاف بتاتا ہے کہ ان کے فیصلوں پر مذہب کی چھاپ ہوتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے لبرل میڈیا کا ایک بڑا اعتراض یہی ہے کہ اس نے اپنے دور صدارت میں تین کنزرویٹو ججز کا تقرر کراکر سپریم کورٹ میں لبرل ججز کی اکثریت کو ختم کردیا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کا نیشنلزم اور وائٹ سپرمیسی اپروچ نسلی تعصب پر مبنی سیاست نہیں تو اور کیا ہے؟یہ کوئی معمولی تعصب نہیں، اس تعصب نے امریکہ میں جمہوریت کو ایسے سنگین خطرات لاحق کردئے ہیں کہ نوم چومسکی اور فرانسس فوکویاما جیسے بڑے مفکر بھی مایوس ہیں۔
دوسرا تجربہ یہ حاصل ہوا کہ اداروں کے احترام اور پارلیمنٹ کی عظمت جیسا دل خوش کن تصور وہاں بھی دھول ہی چاٹ رہا ہے۔ ٹرمپ کی حالیہ ”پرامن سیاسی جدوجہد” نے جو حشر وہاں کیپٹل ہل کا کیا ہے اسے اب صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ ایوان کے دروزے کھڑکیاں توڑ دی گئیں۔ سپیکرآفس اور سینیٹرز کے دفاتر الٹ دئیے گئے۔ تاریخی مجسمے توڑ اور نایاب پینٹگز پھاڑ دی گئیں۔ قیمتی سامان چورا لیا گیا اور سینٹ کی کرسی صدارت پر لونڈوں نے سیلفیاں کھچوائیں۔یہ سلوک ایک عظیم ملک کی عظیم پارلیمنٹ کے ریپ کے منظر کے سوا کچھ نہ تھا۔
تیسرا تجربہ یہ حاصل ہوا کہ حق کو حق کہنے کا رواج ان کے ہاں بھی کسی فیصلہ کن حالت میں نہیں۔ ان کے ہاں بھی ”پارٹی پالیسی” ہی سب کچھ ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ منافقت وہاں کے سیاسی نظام میں بھی پورے عروج پر ہے۔ مثلا بہت ہی سینئر سینیٹر لنڈسے گراہم کو ہی لے لیجئے۔ جب دونلڈ ٹرمپ دھاندلی کا شور مچا کر جھوٹے دعوے کر رہا تھا تو یہ موصوف اس کے سب بڑے سپورٹر تھے۔ ان کی مجموعی حالت بھی یہ ہے کہ سینٹ میں جب بولتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ امریکی نظام کا آدھا وزن تنہاء انہوں نے ہی اٹھا رکھا ہے۔
لیکن جب کیپٹل ہل پر حملہ ہوا تو اسی دن انہوں نے فلور پر کھڑے ہوکر کہا ”مجھے آج کے بعد ٹرمپ کا حامی نہ سمجھا جائے۔ میرا ٹرمپ سے آج کے بعد کوئی تعلق نہیں ” اگلی شام جب موصوف ایئرپورٹ پہنچے اور وہاں انہیں ٹرمپ کے صرف چار حامیوں نے گھیر کر ”شیم شیم” کے نعرے لگا دئے تو اگلی ہی صبح موصوف ایک بار پھر ٹرمپ کے حامی پائے گئے۔ چوتھا تجربہ یہ حاصل ہوا کہ ”آئین کی بالا دستی” امریکہ میں بھی محض ایک ڈھکوسلہ ہے۔ پارلیمنٹ پر مسلح حملہ کرانے والے ٹرمپ کا مواخذہ کرنے کی تحریک امریکی سینٹ میں جمع کرائی گئی تو اس ننگی جارحیت کے حوالے سے ریپبلکن سینیٹرز نے یہ موقف اختیار کرلیا کہ یہ غیر آئینی ہے۔ چنانچہ اس پر ووٹنگ کرائی گئی۔ ووٹنگ میں یہ طے پاگیا کہ ٹرمپ کا یہ مواخذہ غیر آئینی نہیں بلکہ آئینی اقدام ہے۔
لیکن جب مواخذہ شروع ہوا اور ہاؤس منیجرز نے ہر طرح کے ثبوت پیش کرکے ثابت کردیا کہ حملے کا ذمہ دار ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہے۔ اور مرحلہ آیا فیصلے کا تو43 ریپبلکن سینیٹرز نے ٹرمپ کا ساتھ دے کر اسے آئندہ کے لئے ”نا اہل” ہونے سے بچا لیا۔اور وجہ یہ بتائی کہ اس کا یہ دوسرا مواخذہ غیر آئینی ہے۔ بھئی جب سینٹ نے ابتدائی مرحلے میں ہی طے کردیا کہ یہ مواخذہ آئینی ہے تو اب آپ فیصلہ یہ کس طرح کر سکتے ہیں کہ ٹرمپ کا یہ مواخذہ غیر آئینی ہے لھذا ہم اسے بری کرنے کے حق میں ہیں؟یوں آئین وہاں بھی گیا تیل لینے اور ٹرمپ پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کے معاملے میں پارلیمنٹ سے ہی بریت کا پروانہ لے کر چلتا بنا۔ سو ہمارے سیاستدانوں کو بلا وجہ ہی بدنام کیا گیا ہے۔ ان بیچاروں کا چلن بھی تو وہی ہے جو امریکی سیاستدانوں کا ہے۔