دُنیا کی ہر قوم کسی نہ کسی نظرئیے کے تحت زندگی بسر کرتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پہچان بنتا چلا جاتا ہےجبکہ برصغیر کے مسلمانوں کی پہچان دو قومی نظرئیے کو سمجھا جاتا ہے۔
مختصر الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کیجئے تو دو قومی نظرئیے سے برصغیر کے مسلمان یہ مراد لیتے تھے کہ مسلم اور ہندو دو الگ قومیں ہیں جو کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات بار بار ثابت ہوتی رہی ہے تاہم تاریخ نے اپنے آپ کو دوہرانا نہیں چھوڑا۔
گزشتہ روز بھارتی پروفیسر اشوک سوائن کا کہنا تھا کہ عدالت نے جن 11 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی، آج انہیں مٹھائیوں کے ساتھ خوش آمدید کہا جارہا ہے کیونکہ حکومت نے انہیں آزاد کردیا۔
پروفیسر اشوک سوائن نے کہا کہ مذکورہ ملزمان نے ایک حاملہ مسلم خاتون بلقیس بانو سے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران اجتماعی زیادتی کی اور اس کی 3 سالہ بچی سمیت 7 اہلِ خانہ کو قتل بھی کردیا۔
اب بھارت کی حب الوطنی سے مغلوب وہاں رہنے والے انڈین مسلمان چاہے اسے محض ناانصافی قرار دیں جس کا شکار ہندو خود بھی ہوتے ہیں یا اس واقعٹوئے کی کوئی اور توجیہہ گھڑ کر حکومت پر لگائے گئے الزام کو غلط قرار دیں، دو قومی نظریہ پھر بھی اپنا آپ ثابت کرتا نظر آئے گا۔
ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ نریندر مودی جیسے شدت پسند ہندوتوا کے پیروکار وزیر اعظم کی حکومت میں سانس لیتے ہیں جو کسی جرم سے کم نہیں۔ ان کی املاک مسمار کردی جاتی ہیں اور بہن بیٹیوں کی عزتیں تک محفوظ نہیں۔
جو مسلمان ہندوؤں کے دکھ سکھ میں شریک ہو کر بلکہ ان کی طرح بتوں کے آگے ہاتھ جوڑ کر پوجا پاٹ بلکہ ہندو لڑکے لڑکیوں سے اپنی اسلامی شریعت کے خلاف شادیاں تک کر لیتے ہیں، ہندو شدت پسند ان کا بھی جینا حرام کیے ہوئے ہیں۔
قتل و غارت کی دھمکیاں، فسادات، جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کے علاوہ بھارتی مسلمانوں کو عام ہندوؤں کی جانب سے تضحیک، ہراسگی اور بھارتی قوم کا رکن ہونے پر سوال اٹھانے جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ وہ اپنی پوری زندگی خود کو محب الوطن ثابت کرتے کرتے موت سے ہمکنار ہوجایا کرتے ہیں۔
یہی وہ دو قومی نظریہ ہے جس کا پرچار قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک نہیں ہوسکتے کیونکہ ہندو جن بتوں کو خدا سمجھ کر ان کی پوجا کرتے ہیں، مسلمان ان کے مقابلے میں ایک خدا کی وحدانیت کے قائل ہیں اور بت شکنی ان کے مذہب میں مستحبات میں سے ہے۔
مسلمانوں اور ہندوؤں میں ناقابلِ تنسیخ فرق موجود ہے جو صدیاں گزر جانے کے باوجود کم نہیں ہوا بلکہ بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ یہی دو قومی نظرئیے کی سب سے بڑی سچائی ہے جس پر من حیث القوم ہمیں غور کرنا اور اپنے آزاد وطن کو دنیا کی سب سے بڑی نعمت سمجھنا چاہئے۔